کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 103
’’إنہ بعقد الذمۃ وجب لہ ۔ أي للذمي ۔ ما لنا۔ فإذا حرمت غیبۃ المسلم حرمت غیبتہ،بل قالوا: إن ظلم الذمي أشد‘‘[1] ’’ان کے لئے وہی کچھ واجب ہے جو ہمارے لئے ہے۔ پس جب کسی مسلمان کی غیبت کرنا حرام ہے تو ذمی کی غیبت بھی حرام ہے ،بلکہ ذمی پر ظلم کرنا زیادہ سخت جرم ہے۔‘‘ عبداللہ بن وہب رحمۃ اللہ علیہ جو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں ، ان سے نصرانی کی غیبت کرنے کے بارے میں سوال ہوا تو اُنہوں نے فرمایا: ’’أولیس من الناس قالوا: بلی۔قَال فإن ﷲ عزوجل یقول:﴿وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾‘‘ (البقرۃ:۸۳) ’’کیا وہ انسان نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں ، فرمایا: تو پھر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: لوگوں سے اچھی بات کہو۔‘‘[2] اور یہ حقوق صرف ہم وطن غیر مسلموں کو ہی حاصل نہیں ہیں بلکہ ان غیر مسلموں کو بھی یہ حقوق برابر حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کی پناہ اختیار کرچکے ہیں ۔انہیں اَمن و سکون مہیا کرنا ان کی حفاظت و حمایت کرنا اور انہیں اپنی رعایاجیسا حق دینا مسلمانوں پر فرض ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿وَإِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَـلَامَ ﷲِ ثُمَّ أبْلِغْہُ مَأمَنَہُ ذَلِکَ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُوْنَ﴾ (التوبہ:۶) ’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے تو اسے پناہ دے دو، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے، پھر تم اسے اس کی جاے امن تک پہنچا دو۔یہ اس لئے کرنا چاہئے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے۔‘‘ اور پھرغیرمسلموں کو پناہ دینے کایہ حق کسی مخصوص طبقہ کے لئے نہیں ہے، بلکہ ہر مسلمان کویہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی غیرمسلم کو پناہ دے ۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ذمۃ المسلمین واحدۃ،یسعی بھا أدناھم،فمن أخفر مسلما فعلیہ