کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 102
’’تم نے بھی وہی بات کی ہے جو اہل کتاب دوسروں لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’اُمیوں کے معاملہ میں ہم پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے۔‘‘جب وہ جزیہ ادا کردیں تو پھر ان کی رضا مندی کے بغیر ان کا مال تمہارے لئے حلال نہیں ہے۔ ‘‘ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ احمد بن طولون کا ایک کمانڈر مصر کے کسی شہر کا گورنر تھا۔ ایک عیسائی راہب احمد بن طولون کے دربار میں اس کے ظلم کی شکایت لے کر آیا۔ دربار کادربان جو اس کمانڈر کا تعلق دار تھا، اس نے اس سے پوچھا: تجھے کیا شکایت ہے؟ راہب نے جواب دیا: اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے اور میرے تین سو دینار غصب کئے ہیں ۔دربان نے کہا: تو شکایت نہ کر، تین سو دینار میں تجھ کو ادا کردیتا ہوں ۔ وہ راہب کو اپنے گھر لے گیا اور تین سو دینار اس کے حوالے کردئیے۔ راہب نے اسی کو غنیمت سمجھا اور لے کر چلا گیا ۔ احمد بن طولون کو واقعہ کی اطلاع مل گئی، اس نے کمانڈر، دربان اور راہب، تینوں کو دربار میں طلب کیا۔ کمانڈر سے پوچھا: کیا تیری ضروریات پوری نہیں کی جاتیں ؟کیا تجھے خوش حالی اور رزق میں کشادگی میسر نہیں ہے؟ اور کوئی ایسا محرک بھی نہیں ہے جو تجھے دست ِظلم دراز کرنے پر برانگیختہ کرے۔ پھر کس چیز نے تجھے ایسا کرنے پر اُکسایا؟ اس کے بعد احمد بن طولون نے کمانڈر اور دربان دونوں کوان کے عہدوں سے معزول کردیا۔ اس کے بعد عیسائی راہب کو بلایا اور اس سے پوچھا: اس نے تجھ سے کتنے دینار لئے تھے؟ اس نے بتایا: تین سو دینار۔ ابن طولون نے کہا: تیرا برا ہو، تین ہزار دینار کیوں نہیں کہتا، جتنے کہو گے اتنے لے کر دوں گا۔اس کے بعد کمانڈر کے مال سے اُتنے دینار لے کر راہب کو دے دئیے ۔[1] اس کے علاوہ اسلام نے غیر مسلموں کی عزتوں کے تحفظ میں بھی کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی، ان سے تکالیف کو دور کرنا واجب قرار دیا، ان کی غیبت کو حرام ٹھہرایا ،کیونکہ جزیہ و اطاعت کے کے عوض مسلمان ان کے حقوق کی حفاظت کا معاہدہ کرچکے ہیں ۔ اُنہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں ، جیسا کہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی وضاحت کی ہے۔[2]بلکہ اُنہوں نے مزید لکھا ہے: