کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 101
’’اسلام نے اپنے پیغمبر کو صرف ظلم و ستم کے خاتمہ اور ان رکاوٹوں کو ہٹانے کے لئے جہاد کا حکم دیا ہے جو دعوتِ اسلام کے سامنے چٹان بن کر کھڑی ہوگئی ہیں لیکن وہ بزورِ شمشیر کسی کو اپنی حقانیت کا اقرار کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ وہ صرف لوگوں کو اپنے سایۂ عاطفت میں آنے کی دعوت دیتا تھا اور اس کے بعد اسے اختیار کرنے پر مکمل آزادی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص حلقہ بگوش اسلام ہوجاتا ہے تو پھر وہ اس کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے اور اس کے دفاع میں اپنی جان بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، سلامتی اللہ کے ساتھ اور سلامتی تمام کائنات کے ساتھ۔‘‘[1] جس طرح اسلام نے غیر مسلموں کی جان اور خون کا تحفظ کیا ہے، اسی طرح ان کی جائیداد و اَموال کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا ہے، لہٰذا وہ ان کا مال چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹنے، ان کا مال چھیننے والے پرتعزیر عائد کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اور ان سے قرض لینے والے کے لئے اسے واپس کرنا ضروری قرار دیتا ہے اور واپس کرنے میں لیت و لعل کرنے والے کو سزا دیتا ہے ۔ داعی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات موجود ہیں جن میں غیر مسلموں کے اَموال پر دست درازی کو حرام ٹھہرایا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((ألا لا تحل أموال المعاہدین إلا بحقھا)) [2] ’’خبردار! غیر مسلم معاہدین کے مال پر ناحق دست درازی حلال نہیں ہے۔‘‘ صعصعہ بن معاویہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ ہم ذمیوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ ہمارے لئے مرغی یا بکری وغیرہ ذبح کرکے ہماری مہمانی کرتے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا :اس بارے میں تمہارا کیاخیال ہے ؟ میں نے کہا :ہم تو اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ تو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ھذا کما قال أھل کتاب ﴿ لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ ﴾(آلِ عمران:۷۵) إنھم إذا أدّوا الجزیۃ لم تحل لکم أموالھم إلا بطیب أنفسھم‘‘[3]