کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 100
							
						
								
 پہنچانا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کرنے کے بعد تمام تر عہدوپیمان کو پس پشت ڈال کربغاوت کی روش اختیار کرتے ہیں ۔چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿ وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ ﴾ (التوبہ:۱۲)
’’اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ پھر اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر حملے شروع کردیں تو کفر کے علمبرداروں سے جنگ کرو، کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں ۔ شاید وہ اس طرح باز آجائیں ۔‘‘
3. لوگوں کو راہِ حق سے روکنے والوں کے خلاف :اسلام میں جنگ کا ایک مقصد ان راہزنوں کی سرکوبی کرنا ہے جو بندگانِ خدا کو راہِ حق (اسلام) پر چلنے سے زبردستی ہٹاتے ہیں ، یا اُن کے راستے میں کانٹے بچھاتے ہیں یا دوسروں کو اس راہِ خدا کی طرف آنے سے زبردستی روکتے ہیں یا حق کی دعوت کو لوگوں تک پہنچانے میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے خلاف جنگ کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
﴿ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ ۖ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ ﴾ (البقرۃ:۱۹۳)
’’اس وقت تک ان سے لڑتے رہو جب تک فتنہ ختم نہ ہوجائے اور دین اللہ کے لئے ہوجائے پھر اگر وہ باز آ جائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی روا نہیں ۔ ‘‘
4. ظلم کا خاتمہ اور مظلوموں کی حمایت :	اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا ﴾ (النساء :۷۵)
’’اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی راہ میں ان کمزور مردوں ،عورتوں اور بچوں کے لئے جنگ نہیں کرتے جو کہہ رہے ہیں : اے ہمارے رب! !ہمیں اس بستی سے نکال،جہاں کے لوگ نہایت ظالم ہیں اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کسی کو حامی اور اپنی طرف سے کسی کو مددگار بنا۔‘‘
ایک ہندوستانی مفکر بی جی روڈرک اسلام کے اس مقصد ِ جہاد کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
						    	
						    