کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 9
زبردستی سے، ہردو کو زنا ہی کہا جاتا ہے۔ شریعت ِاسلامیہ نے زنا کو رضا اور جبر کی بجائے شادی شدہ او رغیرشادی شدہ میں تقسیم کیا ہے۔ جس طرح زنا کے بعض کیسوں میں عورت کو قتل بھی کردیا جاتا ہے لیکن زنا بالقتل جرم وسزا کی کوئی اصطلاح نہیں ، اسی طرح زنا بالجبر بھی اسلامی شریعت کی کوئی اصطلاح نہیں ہے۔ زنا جیسے بھی ہو، اس کے لئے کتاب وسنت میں حدود اللہ بیا ن کردی گئی ہیں ، چنانچہ زنا بالجبر کی نئی اصطلاح وضع کرکے فعل زنا کی بعض واقعاتی صورتوں کو حدود اللہ سے نکالنا خلافِ اسلام ہے۔فعل زنا کی تمام صورتوں کو حدود آرڈیننس میں ہی ہونا چاہئے۔ حدود آرڈیننس سے زنا کی سزا کو نکالنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جبری زنا کی صورت میں زنا کی شرعی حد کی بجائے صرف تعزیری سزا ہی دینا ممکن ہوگا۔ یہ امر خلافِ اسلام ہے کہ فعل زنا کی سزا حد کی بجائے محض تعزیری بنا دی جائے ! 6. بل کی شق نمبر ۵ کے ذریعے تعزیراتِ پاکستان میں شامل کی جانے والی دفعہ ۳۷۶ میں زنابالجبر کی سزا کو سزائے موت قرار دیا گیا ہے۔اسلام میں عورت سے جبری زنا ہو تو اس صورت میں بھی زانی کی سزا موت نہیں بلکہ کنوارے کے لئے ۱۰۰ کوڑےعلاقہ بدری اور شادی شدہ کے لئے سنگساری کی سزا ہے۔ موطأ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ودیگرکتب ِحدیث میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور کا مشہور واقعہ موجود ہے کہ ’’ایک شخص نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو شکایت کی کہ اس کے مہمان نے اس کی بہن سے جبراً زنا کا ارتکاب کیا ہے۔آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے تفتیش کی تو اس نے اعتراف کرلیا۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسے ۰۰ ۱کوڑے لگائے او رایک برس کے لئے فدَک کے علاقے میں جلاوطن کردیا۔ اور عورت کو نہ تو کوڑے لگائے، نہ ہی جلاوطن کیا کیونکہ زانی نے اسے مجبور کیا تھا۔( ایک سالہ جلاوطنی کے بعد) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے زانی کو حکم دیا کہ اب اسی عورت سے نکاح کرو۔‘‘ (مصنف عبدالرزاق: ۱۲۷۹۶ وموطا: کتاب الحدود، حدیث ۱۳) ایسا ہی ایک واقعہ صحیح بخاری اور دوسری کتب ِ حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق کے دور کا بھی موجود ہے جب خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ فاورق نے جبری زنا کرنے والے مرد کو کوڑوں کی سزا دی۔ اگر زنا بالجبر کی سزا موت ہوتی تو پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ زانی کو مجبور عورت سے نکاح کرنے کا