کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 8
کے طورپر استعمال نہ کیا جائے۔‘‘ یہ ترمیم بھی خلافِ اسلام ہے کیونکہ اسلام نے زنا کی سزا کو عمر کی بجائے جسمانی بلوغت کی علامتوں کے ساتھ منسلک کیا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث نمبر ۲۴۷۰میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی موجود ہے۔٭ ایسے ہی یہ ترمیم خلافِ قانون بھی ہے کیونکہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۸۳ کی رو سے ۷ تا ۱۲ برس کا بچہ/بچی فوجداری جرم کی مسؤلیت سے مستثنیٰ ہے، اس سے بڑی عمر کے بچے کو یہ رعایت حاصل نہیں ۔ پھر زنا کے جرم کو ایسا کیا خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ عورت کو ۱۶برس تک زنا کے جرم سے چھوٹ دے دی جائے؟ یوں بھی زنا کا تعلق بنیادی طورپر ذہنی بلوغت کی بجائے جسمانی بلوغت سے ہے جو مختلف وجوہ کی بنا پر مختلف عمروں میں حاصل ہوتی ہے۔ اس کی ایک عمر مقرر کردینے کانتیجہ یہ نکلے گا کہ ۱۶ برس سے کم عمر بالغ لڑکیوں کے جانے بوجھے زنا کے ارتکاب کے باوجود قانون ان پر گرفت نہیں کرسکے گا !! اس ترمیم کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ لڑکیوں کو۱۶ سال تک زنا کے جرم سے چھوٹ ملنے کے بعد بچوں میں بدکاری پھیل جائے گی، اور ایسی بری عادات کا شکار بچے مستقبل میں بھی جنسی بے راہ روی کا شکار رہیں گے۔ اس امر سے بھی کسی کو مجالِ ا نکار نہیں کہ ۱۶ سال سے کم عمر لڑکیاں اپنی رضامندی سے جنسی فعل کی مرتکب ہوتی ہیں جیسا کہ لاس اینجلس ٹائمز کی ۴/مارچ ۲۰۰۵ء کی رپورٹ میں اسی شہر کے چھٹی کلاس کے طلبہ وطالبات کا ایک سروے شائع کیا گیا تو ۷۰ فیصد بچے جنسی بے راہ روی کے مرتکب پائے گئے۔ ایسے ہی آئے روز سکولوں کی طالبات کے حاملہ ہونے کی خبریں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ 5. قومی اسمبلی میں منظور ہونے والے بل کی شق نمبر۵ کے ذریعے زنا بالجبر کو تعزیراتِ پاکستان میں (دفعہ ۳۷۵ کے تحت) شامل کردیا گیا ہے۔ اسلام کی رو سے زنا رضامندی سے ہو یا ٭ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿وَ اِذَا بَلَغَ الاَطْفَالُ مِنْکُمْ الْحُلُمَ﴾ ( النور: ۵۹) ’’اور جب تمہارے بچے جوانی کو پہنچ جائیں تو اُنہیں اجازت لینی چاہئے۔‘‘حُلُم خواب میں جماع کرنے کو کہتے ہیں اور اس پر اجماع ہے کہ احتلام بلوغت کی علامت ہے۔( فتح الباری: ۵/۲۷۷) اور عورت کوحیض آنا اس کی بلوغت کی علامت ہے اور یہ علامات ۱۲ سے لے کر ۱۵ برس کی عمر تک ظاہر ہوتی ہیں۔ (اضافہ از مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ)