کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 7
1. عورت کی مرضی کے خلاف 2. اس کی رضامندی کے بغیر 3. جب مرضی ہلاکت یاضرر کا خوف دلا کر لی گئی ہو 4. عورت کو اپنا شوہر ہونے کا مغالطہ ہو… 5. لڑکی کی رضا مندی یا اس کے بغیر، جب کہ وہ ۱۶ برس سے کم عمرکی ہو۔‘‘ اس ترمیم سے پہلی بات تو یہ معلوم ہورہی ہے کہ عورت کی مرضی کے خلاف یا اس کی رضامندی کے بغیر کیا جانے والا جنسی فعل ’زنا بالجبر‘ کہلائے گا۔ اس قانون کی رو سے کوئی شوہر اگر اپنی بیوی کی رضامندی کے بغیر اس سے جماع کرتا ہے تو وہ بھی زنابالجبر کا مجرم قرار دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ حدزنا آرڈیننس کی دفعہ ۶ سے اس قانون کو یہاں منتقل کیا گیا ہے اور وہاں زنا بالجبر کی تعریف میں شوہربیوی کا استثنا موجود ہے جسے یہاں عمداً حذف کردیا گیا ہے۔ یہ ترمیم اسی مطالبے کی بازگشت ہے جو مغربی حقوقِ نسواں اور این جی اوز کی پروردہ عورتیں کافی عرصہ سے کررہی ہیں اور چند ماہ قبل پیپلز پارٹی کی ایک رکن ِقومی اسمبلی کا یہ مطالبہ قومی اخبارات میں شائع بھی ہوچکا ہے۔یہ تو روشن خیال اور مغرب نواز لوگوں کا مطالبہ ہے جس کے برعکس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی پڑھ لیجئے کہ (( إذا دعـا الرجل امرأتـہ إلی فراشہ فـأبت فبـاتَ غـضبان علیـہا لعنـتہا الملائکـۃ حتی تصبح)) (صحیح بخاری: ۳۲۳۷) ’’جب کوئی شوہر اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کردے اور شوہر اس سے ناراضی کی حالت میں رات بسرکرے تو فرشتے ایسی بیوی پر صبح ہونے تک لعنتیں بھیجتے رہتے ہیں ۔‘‘ اس ترمیم کے خلاف ِاسلام ہونے میں کسی شخص کو معمولی سا شک وشبہ بھی نہیں ہوسکتا۔ 4. اوپر درج کردہ ترمیم کو صورت نمبر ۵کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا نتیجہ یہ بھی نکلتاہے کہ ۱۶ برس سے کم عمر کی لڑکی کا ہرزنا، زنابالجبر قرار پائے گا۔ یاد رہے کہ زنا بالجبر کی صورت میں عورت سزا سے مستثنیٰ ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۶ برس سے کم عمرکی ہر لڑکی زنا کی سزا سے مستثنیٰ قرار پائے گی۔ اس ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ بل کے آخر میں درج کردہ ’بیانِ اغراض ووجوہ‘ کا پیرا نمبر ۱۴ ملاحظہ ہو : ’’عصمت دری کاالزام لگانے کے لئے عورت کی مرضی [مرد کے] دفاع کے طورپر استعمال کی جاتی ہے۔ یہ انتظام کیا جارہا ہے کہ اگرعورت کی عمر ۱۶ سال سے کم ہو تو مذکورہ مرضی کو دفاع