کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 67
مرد (A man) کے خط کشیدہ الفاظ کے ذریعے اس سزا کو محض مردوں کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے۔ ایسے ہی صورت نمبرایک اور دو میں سابقہ قانون میں ’زیادتی کے شکار‘ لکھ کر ہردو جنس کے لئے عام لفظ لایا گیا تھا، جبکہ نئے قانون میں اسے صرف عورت کے حوالے سے تذکرہ کرکے اس قانون کا فائدہ محض عورت کو دیا گیا ہے۔گویا’صنفی امتیاز‘کے دعوے سے لائی جانے والی ترمیم اب خود دوسرے صنفی امتیاز کو قانونی بنیاد فراہم کررہی ہے۔ یہ صنفی امتیاز نہ صرف زمینی حقائق کے خلاف ہے بلکہ آئین پاکستان کے آرٹیکلنمبر۲۵ کی واضح خلاف ورزی پر بھی مبنی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اَب بدکردار عورتیں اگر مردوں کو بدکاری پرمجبور کردیں تواُنہیں کسی بھی سزا سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے گا۔ 2. دونوں ترامیم کے خط کشیدہ الفاظ ملاحظہ فرمائیے۔ سابقہ قانون کی دوسری سطر میں یہ شرط موجود ہے کہ ’’جس کے ساتھ اس کا جائز نکاح نہیں ہے۔ ‘‘ اب نئے قانون میں یہ شرط حذف کردی گئی ہے۔ ایسے ہی پہلی اور دوسری صورتوں میں ذکر کردہ ’عورت‘ کا لفظ بھی عام ہے جو بیوی کو بھی شامل ہے۔ اس شرط کے حذف اور بعض الفاظ میں ترمیم کا واضح مقصد یہ ہے کہ اُس شوہر کو بھی زنا بالجبر کا مرتکب قراردیاجاسکے جو اپنی بیوی کی رضامندی کے بغیر اس سے جنسی مواصلت کا ’مرتکب‘ ہوتا ہے۔عین ممکن ہے کہ کوئی اسلام پسند جج اس سے یہ مفہوم اَخذ نہ کرے لیکن قانون بنانیوالوں کے عزائم اس حذف و ترمیم سے پوری طرح آشکارا ہو جاتے ہیں وگرنہ ’جائز نکاح کی شرط‘ کو حذف کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ایسے ہی کوئی جج اگر اس قانون سے کسی شوہر کو زنا بالجبر کی سزا دینا چاہے تو قانون اس کو پوری گنجائش بھی فراہم کرتا ہے۔ یوں بھی یہ دفعہ اگر حدود آرڈیننس میں موجود ہوتی جہاں زنا کی تعریف وغیرہ موجود ہے تو وہاں اسے شریعت کے مخصوص تناظر میں محدود کرلیناممکن ہوتا، جبکہ اس دفعہ کو مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ نمبر۳۷۵ کے تحت شامل کیا گیا ہے، جہاں اس کے لئے کوئی خاص پس منظر یا حد بندی موجود نہیں ۔ اس اعتبار سے اس ترمیم میں کھلم کھلا اسلامی شریعت سے انحراف کیا گیا ہے، شریعت ِاسلامیہ کا موقف اس بارے میں بڑاواضح ہے ، ایک فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ فرمائیں : (( إذا دعـا الرجل امرأتـہ إلی فراشہ فـأبت فبـاتَ غـضبان علیـہا لعنتہا الملائکـۃ حتی تصبح)) (صحیح بخاری: ۳۲۳۷)