کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 66
اس دفعہ کو اس دعوے کی بنا پر حدود آرڈیننس سے نکالا گیا کہ زنا بالجبرکی سزا ایک تعزیری مسئلہ ہے، اس لئے اسے حدود آرڈیننس کی بجائے مجموعہ تعزیراتِ پاکستان میں ہونا چاہئے جبکہ اوّل تو یہ دعویٰ ہی درست نہیں کیونکہ زنا بالجبر کا ایک فریق اگر معصوم ہے تو دوسرا فریق (جبرکرنے والا) توبہر حال زنا بالرضا کا ہی مجرم ہے اور اس لحاظ سے اُس کا فعل زنا کے ہی دائرے میں آتا ہے۔ چنانچہ اسے زنا بالجبر قرار دے کر حدود اللہ سے ماورا قرار دینا درست نہیں ۔ ثانیاً:جب اسے ’تحفظ ِخواتین بل۲۰۰۶ء‘ کے ذریعے مجموعہ تعزیراتِ پاکستان میں دفعہ نمبر ۳۷۵ کے تحت داخل کیا گیا تو اس کے متن میں کئی سنگین ترامیم بھی شامل کردی گئیں جیسا کہ تحفظ ِخواتین بل میں اس جرم پر ترمیم شدہ دفعہ کا انگریزی واُردومتن ملاحظہ فرمائیں : Rape: A man is said to commit rape who has sexual intercourse with a woman under circumstances falling under any of the five following descriptions: ترمیم نمبر۵: ’’ریپ: کسی مرد کو Rape (زنا بالجبر) کا مرتکب کہا جائے گا جو کسی عورت کے ساتھ مندرجہ ذیل پانچ حالات میں سے کسی صورت میں مباشرت کرے: 1. عورت کی مرضی کے خلاف 1. against her will. 2. عورت کی رضامندی کے بغیر 2. without her consent 3. عورت کی رضامندی سے، جب یہ رضا موت یا زخمی کرنے کا خوف دلا کر حاصل کی جائے۔ 4. عورت کی رضامندی سے جب کہ مجرم جانتا ہو کہ اس کا اس سے جائز نکاح نہیں ہے اور زیادتی کا شکار سمجھتا ہو کہ وہ وہی شخص ہے جس کے ساتھ اس کا جائز نکاح ہے۔ 5. عورت کی رضامندی سے یا اس کے بغیر، جب کہ وہ سولہ سال سے کم عمر کی ہو۔‘‘ اب سابقہ اور ترمیم شدہ قانون کا ایک تقابلی جائزہ ملاحظہ فرمائیں اور ساتھ ہی یہ بھی فیصلہ کریں کہ سابقہ قانون بہتر تھا یا نیا قانون؟ اور کن مذموم مقاصد کیلئے یہ ترمیم عمل میں آئی ہے: 1. حدود آرڈیننس میں اس فعل کا مجرم ’ایک شخص‘ ہے جو مرد بھی ہوسکتا ہے اور عورت بھی۔ گویا بعض حالات میں مرد کو بھی فعل زنا پر مجبور کیا جاسکتا ہے اور عورت زیادتی کرنے والی بھی ہوسکتی ہے گو کہ یہ امرقدرے نادر ہے لیکن ایسا ہونا خارج ازامکان نہیں جیسا کہ قرآنِ کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام اورزوجہ عزیز ِمصر کا مشہور قصہ بھی موجود ہے۔ جبکہ ترمیم شدہ قانون میں کسی