کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 65
یہ مطالبہ دہرایا جاتا رہا، چندماہ قبل قومی اخبارات میں ایک خاتون رکن قومی اسمبلی نے بھی اس مطالبے کے حق میں بیانات دیے جس پر خوب بیان بازی بھی ہوئی۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ تحفظ حقوقِ نسواں بل کے ذریعے خواتین کو ملنے والے حقوق میں ایک یہ حق بھی شامل ہے جسے مغرب میں اَزدواجی زنا بالجبر سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس طرح شریعت ِاسلامیہ سے کھیلا جارہا ہے! یہ نکتہ اس موضوع پر جاری بحث میں اس لئے اُجاگر نہیں ہوسکا کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ مغرب زدہ این جی اوز اور پیپلز پارٹی کی تائید سے حکومت اس حد تک جاسکتی ہے۔ لیکن ذیل میں بیان کردہ تفصیلات سے یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے کہ نئے بل کی رو سے بیوی کی رضامندی کے بغیر ہونے والے جماع کو بھی جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ اگر کوئی جج اس بنا پر کسی شوہر کوسزا دینا چاہے تو تحفظ ِخواتین بل نہ صرف یہ کہ اس سلسلے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا بلکہ جج کو ایسے شوہر کو زنا بالجبر کا مجرم قرار دینے کے پورے اختیارات بھی دیتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ بحث ان قوانین کے مصدقہ متن اور ماہرین شریعت و قانون سے مشاورت اور تصدیق کے بعد ہی احاطہ تحریر میں لائی جارہی ہے۔ زنا بالجبر کے سابقہ قانون اور ترمیم شدہ قانون میں ایک تقابل حد زناآرڈیننس ۱۹۷۹ء میں دفعہ ۶، زنا بالجبر کے تعریف اور دائرہ کار کے بارے میں تھی۔ اس دفعہ کا متن حسب ِذیل ہے : ’’(۱) ایک شخص زنا بالجبر کا ارتکاب کرے گا، اگر وہ کسی ایسے مرد یا کسی ایسی عورت سے مباشرت کرتا ہے جس کے ساتھ اس کا جائز نکاح نہیں ہے بشرطیکہ حالات مندرجہ ذیل ہوں : 1. زیادتی کے شکار کی رضامندی کے خلاف 2. زیادتی کے شکار کی رضامندی کے بغیر 3. زیادتی کے شکار کی رضامندی سے، جب یہ رضامندی موت یا زخمی کرنے کا خوف دلا کر حاصل کی گئی ہو۔ 4. زیادتی کے شکار کی رضامندی سے جب کہ مجرم جانتا ہو کہ اس کا اس سے جائز نکاح نہیں ہے اور زیادتی کا شکار سمجھتا ہو کہ وہ وہی شخص ہے جس کے ساتھ اس کا جائز نکاح ہے۔‘‘