کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 64
کے علاوہ اس کو معطل کرنے کی جسارت بھی کی گئی ہے، راقم کے اسی شمارے میں شائع شدہ ایک مستقل مضمون کے علاوہ یہاں ایک اور پہلو سے اس تحریف کو پیش کیا جائے گا۔ اسلام میں مرد و زَن کو جوڑا بنانے کے لئے ’نکاح‘ جیسا مقدس بندھن موجودہے اور اس نکاح کے بعد دو مرد و عورت میں وہ تعلقات جائز ہوجاتے ہیں جو اس کے بغیر سنگین گناہ قرار پاتے ہیں ۔ جبکہ مغرب میں نکاح کا تصور تقریباً معدوم ہوچکا ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں جو حیثیت نکاح کو حاصل ہے، مغرب میں یہی حیثیت وقتی رضامندی کو عطا کردی گئی ہے۔ اس اِجمال کی تفصیل یہ ہے کہ یورپ میں اگر کوئی لڑکا لڑکی شادی سے قبل جنسی مواصلت پر وقتی طورپر راضی ہوں تو اسے ’زنا بالرضا‘ کہا جاتا ہے اور یہ فعل قانوناً جرائم کے زمرے میں نہیں آتا، اس پر کوئی سزا موجود نہیں ہے۔ جبکہ اسلام کی رو سے نکاح سے قبل کسی قسم کے جنسی تعلقات تو کجا، مرد وزَن کا خلوت میں بیٹھنا اور عشق معاشقہ رچانا ہی حرام ہے۔ دوسری طرف اسلام میں نکاح کے بعد میاں بیوی کے لئے جنسی تعلقات کو نہ صرف گوارا کیا گیا بلکہ ایک دوسرے کا حق قرار دیتے ہوئے اسے قابل ثواب فعل بھی بتایا گیا ہے۔ اسلام نے یوں تو شوہر کو بھی بیوی کے جنسی حقوق ادا کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے لیکن بیوی کو اس امر کی بالخصوص اجازت نہیں دی کہ وہ نکاح کے بعد اپنے شوہر کی مقاربت کی خواہش پوری نہ کرے جبکہ مغرب میں نکاح کو یہ حیثیت حاصل نہیں بلکہ وہی وقتی رضامندی والا فلسفہ، نکاح کے بعد بھی کارفرما ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کی وقتی رضامندی کے بغیر اس سے جنسی مواصلت کرے تو اسے مغرب میں اَزدواجی زنا بالجبرMarital Rapeسے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ بھی جرم قرار پاتا ہے۔ اسی لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں جو حیثیت نکاح جیسے مقدس بندھن کو حاصل ہے، مغرب میں یہی حیثیت وقتی رضامندی کو دے دی گئی ہے جو شادی سے قبل حاصل ہوجائے تب بھی جنسی فعل معتبر اور جائز اور شادی کے بعد بھی کسی وقت حاصل نہ ہو تو وہ جنسی فعل ’زنا بالجبر‘ قرار پاتا ہے۔ مسلم معاشرہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرامین کی بنا پر ایسا تصور ہی بڑا اجنبی اور مضحکہ خیز ہے۔ لیکن عرصۂ دراز سے مغرب میں حقوقِ نسواں کی علمبردار خواتین رضامندی کے بغیر جنسی تعلق کو جرم قرار دینے کا مطالبہ کررہی تھیں ۔ قاہرہ کانفرنس اور پھر بیجنگ کانفرنس وغیرہ میں