کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 63
خرید وفروخت کو حرام جاننے کے لئے کسی قانونی ضابطہ بندی کا محتاج نہیں رہا۔ جس طرح مسلمان ۱۹۷۹ء کے حدود آرڈیننس سے قبل بھی محض اللہ کے اَحکامات کی اتباع میں زنا کاری اور بدکاری سے اس لئے بچا کرتے تھے کہ اس فعل شنیع کو قرآنِ کریم میں حرام قراردیا گیا ہے اورفرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے اس مکروہ فعل پر اللہ تعالیٰ کو پوری کائنات میں سب سے زیادہ غیرت وغصہ آتا ہے، اسی طرح کسی حکومت کے زنا کو گوارا کرلینے اور اس کی سزاؤں کو ختم کرنے یا اس میں تخفیف کردینے سے بھی ان احکام کی شرعی حیثیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔اور ہر مسلمان کو اپنے طورپر ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اللہ کے عطا کردہ قوانین میں کوئی حاکم وقت یا پارلیمنٹ سرمو تبدیلی کرنے کی مجاز نہیں ۔ یہ تو محض کسی حاکم وقت کی سعادت ہے کہ اسے ان قوانین کی تعمیل کروانے کی توفیق مرحمت ہوجائے، اور یہ کسی کی شقاوت وبدبختی ہے کہ ’اسلام‘ کا دعویٰ کرنے کے باوجود اس کے نامہ اعمال میں اللہ کے قوانین کو بدلنے کی جسارت لکھی جائے۔ ایسے لوگوں کو روزِ محشر ربّ کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرنا چاہئے اور اُنہیں یاد رہنا چاہئے کہ ہرمسلمان کو آخرکار اپنے تمام اَعمال کے لئے ایک روز اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔ حکمرانوں کو اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہئے کہ ’’ایسی حکمرانی روزِ قیامت حسرت وندامت کا سبب ہوگی!‘‘ (سنن کبریٰ از نسائی: ۵۹۲۸) اسلامی احکام پر عمل کرنے کا جہاں ہر مسلمان پابند ہے، وہاں اسلام نے حکمرانوں کو بھی قوتِ نافذہ کے ذریعے اِنہیں مسلم معاشرے میں جاری وساری کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر وہ اس سے انحراف کریں تو ہر مسلمان کی یہ شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں شریعت کے نفاذ پر مجبور کریں ۔ قرآن کی رو سے حکم واختیار کا سرچشمہ ذاتِ باری تعالیٰ ہے، اور اسی امر کو تسلیم کرکے ہم نے اسلام کا دم بھرا ہے، کسی حکمران کی ترمیم کا جواز بنانا تو کجا ، اسلام نے توکسی حکمران کی خلافِ اسلام اطاعت کو بھی سرے سے حرام قرار دے دیا ہے۔ مذکورہ بالا تمہید کا مقصداسلام اور حدوداللہ میں ان صریح ترامیم کے بارے میں شریعت اسلامیہ کا موقف اور اسلام کے تقاضوں کی نشاندہی کرنا ہے۔ ہمارے پیش نظر حدودترمیمی بل (نام نہاد حقوقِ نسواں بل) میں اللہ کے دین سے کھلم کھلا مذاق کیا گیا ہے اور اس میں تحریف