کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 61
پر استدلال کرنا ہی صحیح نہیں ہوگا، کیونکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق قرار دیا جاتا تھا، تو اس کے خلاف تین طلاقوں کو تین ہی بنانے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کلام نبوت میں تضاد کا پایا جانا ممکن نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ِلعان سے تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کیا جاتا ہے، جبکہ اُنہوں نے لعان کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ملاعنہ عورت کو از خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بغیر تین طلاقیں دے دی تھیں ، حالانکہ لعان کے بعد ان کا یہ طلاقیں دینا بے فائدہ اور بے محل تھا۔ اس لئے کہ لعان کی صورت میں عورت، مرد سے نفس لعان سے ہی جدا ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ایک یا تین طلاقیں دینا غیر مؤثر اور بے فائدہ ہے، اسی لئے حضرت ہلال بن اُمیہ نے جب اپنی بیوی سے لعان کیا تھا تو اس کے بعد طلاقیں دینے کا کوئی ذکر نہیں ہے اور یہاں صرف لعان کو ہی جدائی کے لئے کافی سمجھا گیاہے۔ (صحیح بخاری ، کتاب الطّلاق) دوسرے فریق کی طرف سے جن آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کو طلاقِ ثلاثہ کے و قوع پر دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ان کی بھی دو صورتیں ہیں۔بعض آثار تو وہ ہیں جو دونوں معنوں کااحتمال رکھتے ہیں ، ان میں جہاں اکٹھی تین طلاق دینے کا احتمال پایا جاتا ہے، وہاں متفرق طور پر وقفے وقفے سے تین طلاقیں دینے کا احتمال بھی موجود ہے تو کیوں نہ ایسے آثار کو متفرق طور پر تین طلاق دینے پر محمول کیا جائے۔ جو طلاق دینے کا حسن طریقہ بھی ہے اور اس طرح احادیث اور آثار کے درمیان تطبیق بھی ہو جائے گی اور تین طلاقیں اکٹھی دینے والوں کی حوصلہ شکنی بھی ہوسکے گی اور دفعتہً تین طلاقیں دینے کی بدعت سے بھی بچا جاسکے گا۔ اور اگر وہ آثار متفرق طور پر تین طلاقیں دینے کا احتمال نہیں رکھتے بلکہ اکٹھی تین طلاقیں دینے پر ہی دلالت کرتے ہیں تو ان میں ذکر ہونے والی اکٹھی تین طلاقوں کے وقوع کو اس تعزیر پر محمول کیا جائے گا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے غیر محتاط لوگوں کی سزا کے طور پر نافذ کی گئی تھی جیسا کہ یہ بات حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عمل سے بھی ظاہر ہے۔ لیکن اسے طلاقِ ثلاثہ کے لئے اُصول نہیں بنایا جائے گا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ طریقہ طلاق سے اس عمل کا تعارض لازم نہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ طریقۂ طلاق کو اختیار کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق اتباع کو بھی ادا کیا جائے۔ وما علینا إلا البلاغ