کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 60
دوسری بات یہ ہے کہ جب کسی صحابی کا قول و فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت حدیث کے مخالف ہو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو عمل کے اعتبار سے صحابی کے قول و فعل پر مقدم کیاجاتا ہے اور صحابی کے قول و فعل کی وجہ سے حدیث ِنبوی کومجروح بناکر چھوڑ نہیں دیا جائے گا۔ مولانا عبدالحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ حنفی فرماتے ہیں : ’’والحق في ھذاالمقام أن قول النبي ! وفعلہ أحق بالاتباع وقول غیرہ أو فعلہ لایساویہ في الاتباع فإذا وجد من الصحابي ما یخالف الحدیث النبوی یؤخذ بخبر الرسول صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘ (الأجوبۃ الفاضلۃ: ص۲۲۵) یعنی ’’ایسے مقام میں حق اور سچ بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول اور آپ کا فعل ہی اتباع اور پیروی کے لائق ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے کاقول و فعل اتباع اور پیروی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے مساوی اور برابر نہیں ہوسکتا۔لہٰذا جب صحابی رضی اللہ عنہ کاقول وفعل حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف آجائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو ہی قبول کیاجائے گا۔‘‘ طلاقِ ثلاثہ کے بارے میں بحث کا خلاصہ اوراُصولی موقف طلاقِ ثلاثہ کے بارے میں کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک اُصولی بات پیش نظر رکھی جائے اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دے دیتا تھا تو اُنہیں ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا، جیسا کہ حضرت رکانہ بن عبد ِیزید رضی اللہ عنہ نے جب اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں ایک طلاقِ رجعی قرار دیا تھا۔ یہ بات طے شدہ ہے اور جو دلائل اس کے خلاف پیش کئے جاتے ہیں ، اُنہیں بنظر غائر دیکھا جائے تو ان کی دو صورتیں ہیں یا تو وہ دلائل صحیح ثابت ہوں گے اور صحت کے معیار پر پورے اُترتے ہوں گے یا پھر وہ دلائل ضعیف اور غیر ثابت ہوں گے۔ اگر وہ دلائل جو طلاقِ ثلاثہ کے وقوع پر پیش کئے جاتے ہیں ، پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتے بلکہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں تو اُنہیں دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی آثار کاحال ہے۔ لیکن اگر وہ دلائل صحیح ثابت ہیں تو دو حال سے خالی نہیں ہیں ۔ یا وہ دلیل مرفوع حدیث ہوگی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے یا پھر اس کا تعلق آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے ہوگا۔ اگر وہ دلیل جو طلاقِ ثلاثہ کے وقوع کے متعلق پیش کی جاتی ہے، مرفوع حدیث ہے تو اس سے اس موقف