کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 6
ہو؟ اگر (میری بیٹی ) فاطمہ بنت ِمحمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرتی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتے۔‘‘ اس مشہور واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حدود اللہ میں تبدیلی کا اختیار روے کائنات میں کسی کے پاس بھی نہیں ، اشرفُ المخلوقات اورسیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی اگر یہ اختیار ہوتا تو آپ اپنے پیارے صحابہ رضی اللہ عنہم کی بات تسلیم کرلیتے اور اس قریشی عورت کی سزا میں تخفیف فرما دیتے۔ پارلیمنٹ کا زنا کی حد میں ترمیم کرنا اپنے اختیار سے صریحاً تجاوز ، اسلام سے بے وفائی اور اپنے حلف سے غداری ہے۔ مزید برآں دستورِ پاکستان کی دفعات کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔ جس طرح کسی پارلیمنٹ کی ایسی قانون سازی… کہ بہن بھائی آپس میں شادی کرسکتے ہیں … کی اسلام کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں ، اسی طرح زنا کی شرعی سزا میں ترمیم یا تخفیف کی بھی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے۔یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کھلم کھلا جنگ ہے!! 2. جس طرح اسلام میں زنا کی سزا اللہ تعالیٰ نے مقرر کردی ہے اور اس میں تبدیلی کا کوئی بھی مجاز نہیں ، اسی طرح اسلام نے زنا کے جھوٹے الزام (تہمت یا قذف) کی سزا بھی متعین کردی ہے۔ موجودہ بل میں زنا کی تہمت (قذف) کی شرعی حد میں بھی ترمیم کی جسارت کی گئی ہے۔ تہمت یا قذف کی سزا بڑی مشہور ہے، جس کی بنیاد قرآنِ کریم کی یہ آیت ِکریمہ ہے : ﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوْا بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَائَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً وَّلاَ تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً أَبَدًا﴾ (النور: ۴) ’’جولوگ پاک دامن عورتوں پرزنا کا جھوٹا الزام لگاتے ہیں ، اُنہیں ۸۰ کوڑے مارو اور آئندہ کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔‘‘ زنا کی تہمت کی سزا ایک طرف قرآنِ کریم بیان کرتا ہے اور دوسری طرف ہماری حکومت اسے بھی پانچ سال قیدمیں تبدیل کررہی ہے۔ اوپر درج کردہ قرآنی آیات اور فرامین ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے کس نے حکومت یا اَراکین ِپارلیمنٹ کو حدود اللہ میں ترمیم وتخفیف کا یہ اختیار دیا ہے؟ 3. تحفظ ِخواتین بل ۲۰۰۶ء کی ترمیم نمبر ۵ کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’کسی مرد کو زنا بالجبر کا مرتکب کہا جائے گا، جب وہ کسی عورت کے ساتھ مندرجہ ذیل پانچ حالات میں کسی صورت میں مباشرت کرے :