کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 59
کہ باکرہ عورت کو خلوت سے پہلے ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دی جائیں تو ایک طلاق واقع ہوگی جس سے وہ عورت بائنہ ہوجائے گی۔ باقی دو طلاقیں لغو اور بے کار ہوجائیں گی، لہٰذا اَحناف کا اس اثر سے تین طلاقوں کے واقع ہونے پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا یہ فتویٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حدیث ِمرفوع پر عمل کرنا چاہئے۔ 20. ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ ’’ایک شخص نے اپنی غیر مدخول بہا بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ، پھر اس کا خیال ہوا کہ وہ اس سے نکاح کرلے، اس نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فتویٰ طلب کیا۔ ان دونوں بزرگوں نے فرمایا کہ تم اس سے نکاح نہیں کرسکتے، تاوقتیکہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے، اس نے کہا کہ اس کے لئے میری طرف سے ایک ہی طلاق ہے تو اُنہوں نے فرمایا کہ تم نے اپنا اختیار کھو دیا ہے جو تمہارے ہاتھ میں تھا۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ:جولائی ۲۰۰۶ء ، ص۳۲) اس کا جواب بھی وہی ہے جو اس سے قبل ذکر ہوچکا ہے کہ احناف کا اس اثر سے تین طلاقوں کے واقع ہونے پر استدلال درست نہیں ہے کیونکہ ان کے نزدیک غیر مدخول بہا کو دی گئی تین طلاقوں میں سے ایک طلاق واقع ہوتی ہے، باقی دو لغو اور بے کار جاتی ہیں ۔ ویسے بھی یہ اثر مرفوع حدیث کے خلاف ہے،لہٰذا قابل عمل نہیں ہے۔ قابل عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہی ہے۔ 21. ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ ’’ حضرت عطا فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ اب کیا صورت ہو؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ تو نے اپنے ربّ کی نافرمانی کی ہے اور تجھ پر تمہاری بیوی حرام ہوگئی ہے حتیٰ کہ وہ تمہارے بغیر کسی اور مرد سے نکاح کرے۔ ‘‘ (ماہنامہ الشریعہ :جولائی ۲۰۰۶ء ،ص۳۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دو فتوے مروی ہیں ، ان میں سے ان کا وہی فتویٰ قبول کیا جائے گا جو انہی سے مروی حدیث کے موافق ہے کہ عہد ِرسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دوسال تک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی۔