کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 58
نافرمانی کی ہے اور اس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی ہے۔‘‘ (السنن الکبریٰ:۷/۷۳۲) پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بصرہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے لوگوں کو شریعت کی تعلیم دینے کے لیے مامور تھے۔(الاصابہ:۴/۵۸۵) اور اُنہوں نے یہ فتویٰ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے بطورِ تعزیر اختیار کیا تھا۔دوسرا یہاں بھی ہمیں شریعت کے اس اُصول کو پیش نگاہ رکھنا چاہیے کہ ایسی صورت میں جب کہ کسی مسئلہ میں نزاع اور اختلاف ظاہر ہوجائے تو قرآنِ کریم نے ہمیں اسے حل کرنے کے لئے ایک اُصول دیا ہے، تاکہ اس پر عمل کرکے اس نزاع کو حل کرلیا جائے، ارشادِباری تعالیٰ ہے: ﴿فَـإِنْ تَـنَازَعْتُمْ فِيْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ إِلیٰ اللّٰه وَالرَّسُوْلِ إِنْ کُنْـتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ﴾(النساء :۵۹) ’’یعنی جب تمہارا کسی چیز میں نزاع اور اختلاف ہوجائے، اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخر ت کے دن پرایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ۔‘‘اوریہاں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے سے مراد قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرنا ہے، اور حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب کوئی شخص ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیتا تھا تو اُنہیں ایک طلاق شمار کیاجاتاتھا، جیساکہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جبکہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا فتویٰ حدیث ِمرفوع کے خلاف ہے۔ تو ایسے موقع پر ایک سچے مسلمان کا ضمیر اس بات کو گوارا نہیں کرتاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو چھوڑ کر اُمتیوں کی آرا کے پیچھے چلے کیونکہ کوئی بھی اُمتی معصوم عن الخطا نہیں ہے۔ اس لئے آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مقابلہ میں مرفوع حدیث پر عمل کرنا ہی قرآنی اُصول کے مطابق ہے جو اوپر بیان کردیا گیا ہے۔ 19. ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین قرار دینے والوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ ’’ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ سوال کیا کہ ایک شخص نے ہم بستری سے قبل اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ، وہ کیاکرے؟ اس پر حضرت عطا بن یسار نے فرمایا کہ کنواری کی طلاق تو ایک ہی ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’تم قصہ گو ہو۔ ایک طلاق ایسی عورت کو جدا کردیتی ہے اور تین اس کو حرام کردیتی ہیں ۔‘‘ (ماہنامہ ’الشریعہ‘:جولائی ۲۰۰۶ء،ص ۳۲) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا یہ فتویٰ حنفیہ کے خلاف ہے کیونکہ ان کا قول تو یہ ہے