کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 57
دے دیتا، اور اس طرح بار بار طلاق دینے اور اس کے بعد رجوع کرلینے سے ان کی تعداد سو تک یا ہزار طلاقوں تک بھی پہنچ جاتی تھی۔ جیسا کہ حضرت عروہ سے مروی ہے : ’’کان الرجل إذا طلق امرأتہ ثم ارتجعھا قبل أن تنقضي عدتھا کان ذلک لہ وإن طلقھا ألف مرۃ فعمد رجل إلی امرأتہ فطلقھا حتی إذا ما دنا وقت انقضاء عدتھا ارتجعھا ثم طلقھا ثم قال: وﷲ لا آویک إلی ولا، تحلین أبدا‘‘ (أخرجہ مالک والشافعي والترمذی والبیہقي في سننـہ بحوالہ تفسیر فتح القدیر للشوکاني: ج۱/ ص۲۳۹) ’’جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دیتا اور اس کی عدت ختم ہونے کے قریب ہوتی تو رجوع کرلیتا اور یہ اس کے لئے جائز سمجھا جاتا تھا، اگرچہ نوبت ہزار طلاقوں تک پہنچ جائے۔ ایک دفعہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، جب اس کی عدت ختم ہونے کے قریب آئی تو اس نے رجوع کرلیا۔ اس کے بعد پھر طلاق دے دی اور مطلقہ عورت سے کہا: اللہ کی قسم! نہ تو میں تجھے بساؤں گا اور نہ ہی تجھے چھوڑوں گا کہ توآگے کسی سے نکاح کرسکے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ سو یا ہزار طلاقیں کیسے دیتے تھے اور تین طلاقوں کو تین ہی قرار دینے والے حضرات جو ایسی روایات پیش کرتے ہیں جن میں کسی شخص کے اپنی بیوی کو سو یا ہزار طلاقیں دینے کاذکر آتا ہے تو اس سے دفعتہً اکٹھی طلاقیں دینا مراد نہیں ، جیسا کہ عام طور پرسمجھا جاتا ہے۔ بلکہ حضرت عروہ کی حدیث ِمذکور کے مطابق ہر مہینے بعد وقفے سے طلاقیں دینا مراد ہے اور ایسا وہ عورتوں کو ستانے کے لئے کرتے تھے۔ اسلام نے بے شمار طلاقیں دینے کا خاتمہ کردیا، اور تیسری طلاق کو مرد و عورت میں جدائی ڈالنے والی طلاق بنا دیا جس کے بعد رجوع کا حق ختم ہوجاتا ہے۔ اس بنا پر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہی طریقہ طلاق مراد ہے جو حدیث ِعروہ میں ذکر ہوا ہے کہ متفرق طور پر دی ہوئی طلاقوں سے تیسری طلاق سے عورت اس سے جدا ہوجائے گی اور باقی طلاقیں لغو قرار پائیں گی۔ 18.ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ ’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے یہ سوال کیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ اب وہ کیا کرے؟ حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس نے ربّ تعالیٰ کی