کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 56
گئی تھیں ۔ ہوسکتا ہے کہ اس نے تین طلاقیں مختلف مجالس میں دی ہوں : إذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال ! تیسرا یہ کہ ایسے موقعے پر ایک اُصولی بات کو عام طور پر نظر انداز کردیا جاتاہے وہ یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت مرفوع حدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت شدہ آثار میں تضاد اور اختلاف پایا جائے تو اس وقت نبی علیہ السلام سے ثابت مرفوع حدیث مقدم ہوتی ہے۔ اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم کو چھوڑ دیا جاتا ہے، کیونکہ مرفوع حدیث کی نسبت اس مقدس ہستی کی طرف ہوتی ہے جو معصوم ہے جس پر ہر وقت وحی الٰہی کا پہرہ موجود رہتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی شخص بھی خطا و نسیان سے پاک نہیں ہے۔ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کے شروع میں جب کوئی آدمی اکٹھی تین طلاق دے دیتا تھا تو اُنہیں ایک بنایا جاتا تھا تو اس مرفوع حدیث پر عمل ہونا چاہئے۔ اس کے مقابلے میں موقوف کو نظر انداز کرنا چاہئے کیونکہ قرآن کریم کی رو سے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اتباع اور پیروی کا حکم ہے۔ 17. ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ’’ایک شخص نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو دو سو طلاق دے دی ہیں ، اب کیا حکم ہے؟ اُنہوں نے فرمایا تجھے کیا فتویٰ دیا گیا ہے؟ اُس نے کہا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ عورت اب مجھ سے بالکل الگ اور جدا ہوگئی ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگوں نے سچ کہا ہے۔‘‘ (موطا امام مالک:۱۹۹) (ماہنامہ ’الشریعہ‘:جولائی ۲۰۰۶ء) ایسی روایات جن میں بیوی کو دو سو یا ہزار طلاقیں دے ڈالنے کا ذکر آتا ہے اُنہیں پڑھنے والا حیران ہوتا ہے کہ آج کے گئے گزرے دور میں بھی کوئی شخص اتنی کثرت سے طلاقیں نہیں دیتا کہ وہ دو سو یا ہزار تک پہنچا کر ہی دم لے، لیکن اُس دور میں اتنی کثرت سے طلاقیں کیوں دی جاتی تھیں ؟ درحقیقت وہ لوگ زمانۂ جاہلیت سے ہی کثرت سے طلاقیں دینے کے عادی تھے، ان میں سے کوئی شخص اگر بیوی کو تنگ کرنا چاہتا تو وہ اسے طلاق دے دیتا، اور جب اس کی مطلقہ کی عدت ختم ہونے کے قریب آتی تو پھر اس سے رجوع کرلیتا، اس کے بعد پھر طلاق