کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 55
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ایک فتویٰ تو وہ ہے جو سنن ابوداؤد میں منقول ہے اور جو تین طلاق کے ایک ہونے کا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:’’إذا قال أنت طالق ثلاثا بفم واحد فھي واحدۃ‘‘ (ابوداؤد مع عون المعبود: ج۶/ ص۱۹۴) اور یہی فتویٰ حضرت طاؤس کے واسطے سے بھی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور یہ اس حدیث کے مطابق بھی ہے جو صحیح مسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اور دوسرا فتویٰ ان کا تین طلاقوں کے تین ہونے کا ہے جسے اُنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے بطورِ تعزیر کے اختیار کیا تھا یہاں یہی مراد ہے۔ کیونکہ اس حدیث کے الفاظ سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ یہ فتویٰ اُنہوں نے طلاق دہندہ کی سزا کے طور پر نافذ کیا تھا جو عارضی اوروقتی تھا اور اسے اُصول نہیں بنایا جاسکتا۔ 16. ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ ’’حضرت معاویہ بن ابی عیاش انصاری فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر اور عاصم بن عمرو کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں حضرت محمد بن ایاس بن بکیر تشریف لائے اورپوچھنے لگے کہ ایک دیہاتی گنوار آدمی نے اپنی غیر مدخول بہا عورت کو دخول سے قبل تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ کہا: جا کر ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھو۔ جب سائل ان کے پاس حاضر ہوا اور دریافت کیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اے ابوہریرہ! فتویٰ دیجئے لیکن سوچ سمجھ کربتانا کہ مسئلہ پیچیدہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک طلاق اس سے علیحدگی کے لئے کافی تھی۔ اور تین طلاقوں سے وہ اس پر حرام ہوگئی ہے۔ الا یہ کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح کرے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی یہی فتویٰ دیا۔ (موطأ امام مالک: ص۲۰۸، الطحاوی، السنن الکبریٰ:۷/۳۳۵) (ماہنامہ ’الشریعہ‘:جولائی ۲۰۰۶ء) یہ حدیث بھی تین طلاقوں کو تین قرار دینے والوں کے لئے کئی طرح سے مفید نہیں : ایک تو اس لئے کہ اس حدیث میں غیر مدخول بہا کوتین طلاق دینے کاذکر ہے اور غیرمدخول بہا کو تین طلاقیں دی جائیں تو احناف کے نزدیک وہ ایک طلاق سے جدا ہوجاتی ہے۔ باقی دو طلاقیں واقع ہی نہیں ہوتیں تو علماے حنفیہ اس حدیث سے تین طلاقوں کے واقع ہونے پر استدلال کیسے کرسکتے ہیں جبکہ یہ ان کے مذہب کے ہی خلاف ہے۔ دوسرا اس لئے کہ اس حدیث میں صراحت نہیں ہے کہ یہ تین طلاقیں ایک ہی مجلس میں دی