کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 54
کی شکل نہیں پیدا ہوسکتی؟ اس پرابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جوشخص اللہ تعالیٰ سے دھوکہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کواس کا بدلہ دے گا۔ ‘‘ (السنن الکبریٰ :۷/۳۳۷) (ماہنامہ ’الشریعہ‘: ص۳۰) صحیح مسلم کی وہ حدیث جس میں یہ ذکر ہے کہ عہد ِرسالت صلی اللہ علیہ وسلم ، خلافت ِصدیقی رضی اللہ عنہ ، اور دوسال خلافت ِفاروقی رضی اللہ عنہ تک ایک مجلس کی تین طلاق ایک شمار ہوتی رہی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے ایسے موقع پر عجلت سے کام لیا ہے جس میں ان کے لئے تاخیر چاہئے تھی۔ کاش! ہم اس امر کو ان پر جاری کردیں ۔لہٰذا اُنہوں نے اس امر (تین طلاق…) کو جاری کردیا۔ یہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کردہ ہے۔ اس کی روشنی میں تین طلاق کو تین قرار دینا ان کی طرف سے بطورِ تعزیر تھا جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا جوطلاق دہندہ کی سزا کے طور پر اُنہوں نے صادر کیا تھا۔ لیکن یہ فیصلہ عارضی اور وقتی تھا جس سے خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رجوع کرلیاتھا۔ لہٰذا اسے طلاقِ ثلاثہ کے لئے اُصول نہیں بنایا جاسکتا۔نیز اس حدیث میں ’حلالہ‘ کے متعلق خداع کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقوں کو محرّم بنانے کے بعد طلاق دہندہ کوحلالہ کے نام سے بدکاری کا راستہ دکھانا، حلالہ کرنا اور کرانا اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کے ساتھ دھوکہ اور فریب ہے جس کا اللہ تعالیٰ عذاب اور سزا کی صورت میں بدلہ دے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿یُخٰدِعُوْنَ اللّٰه وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ إِلاَّ أَنْفُسَھُمْ وَماَ یَشْعُرُوْنَ﴾ (البقرۃ: ۹) 15. ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ’’ایک شخص نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس پر سکوت اختیارکیا، ہم نے خیال کیا کہ شاید وہ اس عورت کو اسے واپس دلانا چاہتے ہیں مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو: ’’اے ابن عباس رضی اللہ عنہما ! اے ابن عباس رضی اللہ عنہما بات یہ ہے کہ جوشخص خدا تعالیٰ سے نہ ڈرے تو اس کے لئے کوئی راہ نہیں نکل سکتی۔ جب تم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے تو اب تمہارے لئے کوئی گنجائش نہیں ۔ تمہاری بیوی اب تم سے بالکل علیحدہ ہوچکی ہے۔‘‘(السنن الکبریٰ: ج۷/ص ۳۳۱) (ماہنامہ ’الشریعہ‘:جولائی ۲۰۰۶ء، ص۳۰)