کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 53
ضرورت نہیں ہے۔ تیسرا یہ کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقوں کو تین شمار کیا بھی ہے تو یہ ان کی خلافت کے دو، تین سال گزرنے کے بعد ان کے طلاقِ ثلاثہ کے وقوع سے متعلق مشہور فیصلے کی وجہ سے تھا جس کے ذریعے وہ اکٹھی تین طلاقیں دینے والوں کو اس کارِ معصیت سے روکنا چاہتے تھے۔ 12. ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ ’’حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص اپنی بیوی کو ہم بستری سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ عورت اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے۔‘‘ (السنن الکبریٰ:۷/۳۳۴) اس حدیث سے استدلال بھی حنفی مذہب کے خلاف ہے جیسا کہ ابھی گزر چکا ہے، اور یہاں یہ بھی احتمال ہے کہ تین طلاقوں سے متفرق طور پر طلاق دینا مراد ہو۔ 13. ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ ’’ایک روایت میں یوں آیاہے کہ ایک شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دی ہیں ، اُنہوں نے فرمایاکہ تین طلاقیں تو اس کو تجھ پر حرام کردیتی ہیں اور باقی ماندہ طلاقیں اپنی دوسری بیویوں پرتقسیم کردے۔ (السنن الکبریٰ:۷/۳۳۵) معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ایک کلمہ اور ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیتے ہیں ۔ ‘‘ (ماہنامہ ’الشریعہ‘:جولائی ۲۰۰۶ء، ص۳۰) اس اثر کی سند میں حبیب بن ابی ثابت اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان ’’بعض أصحابہ‘‘ یعنی اس کے بعض ساتھیوں کا واسطہ ہے۔ جس کاپتہ ہی نہیں کہ یہ کون شخص ہے اور کیسا ہے؟ لہٰذا اس مجہول راوی کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ (الطلاق الثلث في مجلس واحد ص۵۳) اور ایسے ضعیف آثار سے استدلال کرنا اہل علم کو زیب نہیں دیتا۔ 14. ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ اب اس کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ تیرے چچا نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے۔ اور اب اس کی کوئی صورت نہیں بن سکتی۔ وہ شخص بولاکہ کیا حلالہ کی صورت میں بھی جواز