کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 52
حضرات دفعتہً تین طلاقوں کو تین ہی بنا کر کیوں اسلام کا مذاق اُڑا رہے ہیں ۔ اگر مدینہ طیبہ کے مسخرہ مزاج آدمی کافعل اسلام کا مذاق اُڑانے کے مترادف تھا تو آج بھی دفعتہً دی ہوئی تین طلاقوں کو تین قرار دینا طلاق کے مشروع طریقے کا مذاق اُڑانے سے کم نہیں ہے، اور اس کے بعد حلالہ نکالنے کا حکم دینے سے تو اس مذاق کی شدت اور بڑھ جاتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان میں کہ ’’تجھے تین ہی کافی تھیں ۔‘‘ تین طلاقیں متفرق طور پر دینے کا احتمال بھی موجود ہے اور اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اکٹھی تین طلاقوں کو تین قرار دیا بھی ہے جیسا کہ مضمون نگار کی رائے ہے، تو یہ آپ کا ذاتی فیصلہ تھا جو اُنہوں نے اپنی خلافت کے دو تین سال بعد غیر محتاط لوگوں کی سزا کے طور پر نافذ کیا تھا۔آخر زندگی میں آپ رضی اللہ عنہ نے ندامت کے ساتھ اس سے رجوع کرلیا تھا۔ 11. ان کی ایک دلیل حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک کی یہ روایت ہے کہ’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کو ہم بستری سے پہلے تین طلاقیں دے دیں ، فرمایا کہ تین ہی طلاقیں متصور ہوں گی اور وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں تاوقتیکہ وہ کسی اور شخص سے نکاح نہ کرلے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب ایساشخص لایاجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو سزا دیا کرتے تھے۔ ‘‘ (السنن الکبریٰ:۷/۳۳۴) (ماہنامہ الشریعہ، جولائی ۲۰۰۶ء) اس حدیث سے علماے احناف کا تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کرنا کئی طرح سے درست نہیں ہے۔ ایک تو اس لئے کہ غیرمدخول بہا عورت کو تین طلاقیں دے دی جائیں تو احناف کے نزدیک بھی وہ پہلی طلاق سے جدا ہو جائے گی، دوسری اور تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی۔ ہدایہ میں ہے: ’’فإن فرق الطلاق بانت بالأولی ولم تقع الثانیۃ والثالثۃ ‘‘ (ہدایہ،ص۳۸۸) اس سے معلوم ہوا کہ حدیث ِانس رضی اللہ عنہ سے غیر مدخول بہا کے لئے تین طلاقوں سے تین ہی واقع ہونے پر استدلال کرنا فقہ حنفی کے ہی خلاف ہے۔ دوسرا یہ کہ حدیث ِانس رضی اللہ عنہ میں تین طلاق کے دفعتہً دینے کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔ اس میں متفرق طور پر تین طلاقیں دینے کا احتمال بھی موجود ہے۔ رہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایسے شخص کوسزا دینا تو یہ سزا غیر مدخولہ کو تین طلاقیں دینے پر دی جاتی تھی کیونکہ غیر مدخولہ جب ایک طلاق سے جدا ہوجاتی ہے تو اسے تین طلاقیں دینے کی