کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 51
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت میں مجھے رجوع کا حکم دیا تھا اور اگر تم نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو یقینا وہ تم پر حرام ہوگئی ہے جب تک کہ وہ تیرے بغیر کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے اور اس طرح تو نے اپنی بیوی کو طلاق دینے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی بھی کی ہے۔‘‘ (بخاری ،مسلم بحوالہ ماہنامہ الشریعہ:جولائی ۲۰۰۶ء ، ص۳۰) اَحناف کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں خواہ ایک لفظ سے ہوں جیسے ’’تجھ کو تین طلاق ہے۔‘‘ یا متعدد الفاظ سے ہوں ، جیسے ’’تجھ کو طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے۔‘‘یہ دونوں صورتیں تین طلاق کے حکم میں ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا مذکورہ فیصلہ ان کے دعویٰ کی حمایت نہیں کرتا، بلکہ ان کا یہ جملہ کہ ’’تم نے ایک بار یا دو بار طلاق دی ہوتی‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ اکٹھی تین طلاقوں کے بارے میں نہیں بلکہ متفرق طور پر طلاقیں دینے کے بارے میں ہے۔ یہ قرینہ بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’فإن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أمرني بھذا‘‘ کہ’’ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی کا حکم دیاتھا۔‘‘ ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دفعتہً اکٹھی تین طلاقیں دینے کا حکم نہیں دیا تھاجو کہ بدعت ہے بلکہ متفرق طور پر طلاق دینے کا حکم دیاتھا۔ (جو کہ جائز بلکہ حسن طلاق ہے) (الطلاق الثلث في مجلس واحد از ابوالسلام مولانا محمد صدیق رحمۃ اللہ علیہ : ص۵۴) 10. ان کی ایک دلیل حضرت زید بن وہب کی یہ روایت ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک مسخرہ مزاج آدمی تھا، اس نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دیں ۔ جب ان کا یہ معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں پیش کیا گیا اور ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ میں نے تو محض دل لگی اور خوش طبعی کے طور پر یہ طلاقیں دی ہیں ، یعنی میرا قصد و اِرادہ نہ تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دُرّہ سے اس کی مرمت کی اور فرمایا کہ ’’تجھے تو تین طلاقیں ہی کافی تھیں۔‘‘ (السنن الکبریٰ:۷/۳۳۴) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ایک کلمہ یا ایک ہی مجلس میں دی گئی طلاقوں کا اعتبار کرتے تھے۔ (ماہنامہ ’الشریعہ‘، جولائی ۲۰۰۶ء ، ص۳۰) سوچنے کا مقام ہے کہ مدینہ طیبہ کے مسخرہ مزاج آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق مسلسل دے کر اسلام کا تمسخر اُڑایا جو درست نہ تھا۔ لیکن تین طلاقوں کو تین بنانے والے