کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 50
الگ ہوگئی۔ اس شخص نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی تو ایسا ہی معاملہ پیش آیاتھا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان کو رجوع کا حق دیاتھا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے فرمایا کہ ’’بلا شبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کی طرف رجوع کرلے مگر اس لئے کہ اس کی طلاق باقی تھی اور تیرے لئے اپنی بیوی کی طرف رجوع کا حق نہیں ۔‘‘(السنن الکبریٰ:۷/۳۳۴) (ماہنامہ الشریعہ: جولائی ۲۰۰۶ء) کسی حدیث میں ثلاثا یعنی تین کالفظ آجائے تو علماے حنفیہ جھٹ اسے دفعتہً اکٹھی تین طلاقوں پر محمول کرکے میاں ، بیوی میں جدائی ڈالنے کا فتویٰ دے دیتے ہیں ۔ اور پھر پریشان حال طلاق دہندہ کو حلالہ کے نام پر بدکاری اور بے غیرتی کا راستہ دکھاتے ہیں ، حالانکہ احناف کے حلالہ اور روافض کے متعہ میں صرف نام کا فرق ہے، درحقیقت دونوں ہی اسلام کی پیشانی پر بدنما دھبہ ہیں ، بلکہ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تالیف إغاثۃ اللھفان میں بارہ وجوہات سے ثابت کیا ہے کہ حلالہ رافضیوں کے متعہ سے بھی زیادہ قبیح اور بُرا ہے۔ اگر احادیث میں وارد ثلاثا(تین) کے لفظ کو طلاقِ حسن یعنی متفرق طور پر طلاق دینے پر محمول کیا جائے اور اسے طلاقِ حسن بنایا جائے تو حلالہ جیسی لعنت سے بچا جا سکتا ہے۔ بنا بریں حدیث ِمذکور میں بھی بتہ کے لفظ سے متفرق طور پر تین طلاقیں دینا مراد ہے کیونکہ اس طرح تیسری طلاق اَزدواجی تعلق کو قطع کردیتی ہے۔ حدیث ِمذکور میں سائل کی اپنی بیوی کو دی ہوئی طلاق کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی طلاق کے ساتھ تشبیہ دینے سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اس نے تین طلاقیں متفرق طور پر دی تھیں کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی باقی دو طلاقیں باقی دو حیض میں دینے کا ارادہ کیاتھا، جیسا کہ حدیث نمبر۶ کے تحت ذکر ہوچکا ہے اور حدیث میں آنے والے لفظ معصیت اور نافرمانی کا تعلق حیض کی حالت میں طلاق دینے سے ہے، اس حدیث سے تین طلاقیں واقع کرنے والوں کا موقف ثابت نہیں ہوتا۔ اُنہیں چاہئے کہ اس موقف پر کوئی صحیح اور صریح دلیل پیش کریں ۔ 9. ان حضرات کی نویں دلیل یہ ہے کہ ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جب اسی قسم کے مسئلہ کے بارہ میں سوال کیا جاتا تو وہ فرماتے تم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہیں تو بے شک