کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 49
اضطرابہ معارض بحدیث ابن عباس أن الطلاق کان علی عھد رسول اللّٰه واحدۃ، فالإستدلال بھذا الحدیث لیس بصحیح‘‘ (ج۶/ ص۲۰۸) ’’حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کی بتہ والی حدیث ضعیف ہے ، اور ضعیف ہونے کے ساتھ یہ مضطرب بھی ہے اور مضطرب ہونے کے باوجود یہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث کے خلاف بھی ہے جس میں ذکر ہے کہ تین طلاقیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دو، تین سال تک ایک ہی شمار ہوتی تھیں … اس کے برعکس حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث جس میں ثلاثا کالفظ وارد ہے اور وہ تین طلاق کے ایک ہونے کی دلالت کرتی ہے، سند کے اعتبار سے صحیح ثابت ہے جیساکہ مسند احمد میں ہے ’’عن ابن عباس قال طلّق رکانۃ بن عبد یزید أخو بني مطلب امرأتہ ثلاثا في مجلس واحد فحزن علیھا حزنا شدیدا۔قال: فسألہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم (( کیف طلقتھا؟)) قال:طلقتھا ثلاثا،قال: فقال: (( في مجلس واحد؟)) قال: نعم۔قال (( فإنما تلک واحدۃ، فارجعھا إن شئت)) قال: فرجعھا فکان ابن عباس یریٰ أنما الطلاق عند کل طھر‘‘ (مسند احمد:۳/۹۱، بہ تحقیق احمد شاکر) ’’ رکانہ بن عبد ِیزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں اور پھر اسے اس پر سخت پریشانی ہوئی۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو نے کیسے طلاق دی ہے؟ کہا:تین طلاقیں دے بیٹھاہوں ۔ فرمایا: کیا ایک ہی مجلس میں ؟ کہا: ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو ایک ہی طلاق ہوئی۔ اگر چاہے تو اس سے رجوع کرلے تو رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے میں طلاق ہر طہر میں دینی چاہئے۔‘‘ اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق قرار دیا ہے اور اس کے خلاف جوروایات پیش کی جاتی ہیں وہ یا تو ضعیف اور مجروح ہیں اور اگر صحیح ہیں تو ان سے تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ 8. ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں نے بحالت ِحیض اپنی بیوی کو بتہ طلاق دے دی ہے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ تو نے پروردگار کی نافرمانی کی ہے اور تیری بیوی تجھ سے بالکل