کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 48
کیاہے؟ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی قسم! تو نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا ہے؟ رکانہ نے کہا: اللہ تعالیٰ کی قسم! میں نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بی بی اسے واپس دلوا دی۔‘‘ (سنن ابوداؤد، سنن دارقطنی وغیرہ) اس پر صاحب ِمضمون کہتے ہیں : ’’اگر لفظ بتہ سے دفعتہً تین طلاقیں پڑنے کا جواز ثابت نہ ہوتا تو جناب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کو کیوں قسم دیتے؟ چونکہ کنایہ کی طلاق میں نیت کا دخل بھی ہوتا ہے اور لفظ بتہ تین کا احتمال بھی رکھتا ہے، اس لئے آپ نے ان کو قسم دی، اگر تین کے بعد رجوع کا حق ہوتا اور تین ایک سمجھی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو قسم نہ دیتے۔‘‘ (ماہنامہ ’الشریعہ‘ جولائی ۲۰۰۶ء،ص ۲۹) حنفیہ کا اس حدیث سے دفعتہً تین طلاقیں واقع ہونے پر استدلال کرنا ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی بات ہے۔ کیونکہ ایک تو یہ روایت ہی ضعیف ہے دوسرا یہ روایت حنفیہ کے مذہب کے مطابق نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف ہے، حنفیہ کے مذہب کے مطابق بتہ کے لفظ سے جب ایک طلاق مراد لی جاتی ہے تو وہ ایک بائنہ ہوتی ہے جس کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا اور بیوی واپس نہیں دلوائی جاسکتی، ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’طلاق البتۃ عند الشافعي واحدۃ رجعیۃ وعند أبي حنیفۃ واحدۃ بائنۃ‘‘ (عون المعبود: ج۶/ ص۲۰۸) ’’یعنی طلاق بتہ سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے جبکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایک طلاقِ بائنہ پڑے گی۔‘‘ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کے مطابق لفظ بتہ سے ایک طلاق کو رجعی بنایا گیا ہے اور بیوی اسے واپس دلوائی گئی ہے تو اس حدیث سے حنفی حضرات استدلال کیسے کرسکتے ہیں ؟ اور رکانہ رضی اللہ عنہ کی روایت جو بتہ کے لفظ کے ساتھ آئی ہے اور جس سے حنفیہ تین طلاق کے واقع ہونے پر استدلال کرتے ہیں ، زبیر بن سعید کی وجہ سے ضعیف ہے، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’فیہ زبیر بن سعید بن سلیمان نزیل المدائن لین الحدیث من السابعۃ‘‘ (تقریب التہذیب: ج۱/ ص۲۵۸) نیز اس میں عبداللہ بن علی بن یزید راوی بھی ضعیف (لین الحدیث) ہے اور نافع بن عجیر مجہول ہے۔ دیکھئے :زاد المعاد: ج۴ /ص۵۹ عون المعبود میں ہے: ’’إن الحدیث ضعیف ومع ضعفہ مضطرب ومع