کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 47
جیسا کہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ’’حدثنا عبد اللّٰه بن عمر أنہ طلق امرأتہ تطلیقۃ وھي حائض ثم أراد أن یتبعھا تطلیقتین أخراوین عند القرئین الباقیـین فبلغ ذلک رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ۔۔۔ الخ‘‘ (سنن کبریٰ بیہقی :۷/۳۳۴) ’’ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق حیض کی حالت میں دے دی، پھر ارادہ کیا کہ باقی دو طلاقیں بھی دو مختلف حیضوں یا طہروں میں دے دیں ۔۔۔ الخ۔‘‘ جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خود باقی دو طلاقیں دو مختلف حیضوں یا دو مختلف طہروں میں دینے کا ارادہ رکھتے تھے تواسے دفعتہً اکٹھی تین طلاقوں پر محمول کیسے کیاجاسکتاہے؟ لہٰذا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر میں اسے تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لئے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کرلوں ؟ اس سے متفرق طور پر دو مختلف حیضوں میں طلاق دینا ہی مراد تھا جس کا ارادہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اس سے پہلے کرچکے تھے، اور اس سے دفعتہً اکٹھی تین طلاقیں مراد لے کر ایک ہی حدیث کے اوّل اور آخر حصے کو آپس میں ٹکرا دینا حدیث نافہمی کی دلیل ہے۔ باقی رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کام کو معصیت کہنا تو اس کا تعلق دراصل حالت ِحیض میں تین طلاقیں دینے سے ہے یا متفرق طور پر تین طلاقیں دینے کے بعد رجوع کرنے کو معصیت کہا گیا ہے۔ اس حدیث کے ناقابل استدلال ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سنن بیہقی کی یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں شعیب بن رزیق راوی ہے جسے محدثین نے مجروح قرا ردیا ہے۔ دوسرا راوی عطاء خراسانی ہے جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، شعبہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ضعیف ہے اور سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ نے اسے جھوٹا کہا ہے۔ (بحوالہ ’تین طلاقیں ‘ ص ۱۲۲) 7. ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت نافع بن عجیر فرماتے ہیں کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ کو بتہ (تعلق قطع کرنے والی) طلاق دی۔ اس کے بعد اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی اور کہا: بخدا میں نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ ٭ زیر نظر بحث اور مذکورہ حدیث کی تفصیل کے لیے دیکھیے : تطلیقات ثلاثۃ از مولانا عبد الرحمٰن کیلانی رحمۃ اللہ علیہ شائع شدہ ماہنامہ ’ محدث ‘ لاہور ، بابت اپریل 1992ء .....ص 52 تا 79