کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 46
تھا۔ اگر حضرت عویمر رضی اللہ عنہ کا لعان کے بعد اس عورت کو تین طلاقیں دینے کاعمل برمحل اور مؤثر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر اسی طرح ناراضگی اور غصے کا اظہار فرماتے جس طرح محمود بن لبید کی حدیث کے مطابق ایک آدمی کے تین طلاقیں دفعتہً اکٹھی دینے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کا اظہار فرمایاتھا۔ حتیٰ کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اسے قتل نہ کردوں ؟ لہٰذا لعان والی حدیث سے دفعتہً تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کرنا انتہائی ضعیف موقف ہے۔ 6. ان حضرات کی چھٹی دلیل یہ ہے کہ ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بحالت ِحیض اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی، پھر ارادہ کیا کہ باقی دو طلاقیں بھی باقی دو حیض یاطہر کے وقت دے دیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تجھے اللہ تعالیٰ نے اس طرح حکم تو نہیں دیا، تو نے سنت کی خلاف ورزی کی ہے۔ سنت تو یہ ہے کہ جب طہر کا زمانہ آئے تو ہر طہر کے وقت اس کو طلاق دے، وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ تو رجوع کرلے۔ چنانچہ میں نے رجوع کرلیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ جب وہ طہر کے زمانہ میں داخل ہو تو اس کو طلاق دے دینا اور مرضی ہوئی تو بیوی بناکر رکھ لینا، اس پر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو بتلائیں ، اگر میں اس کو تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لئے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کرلوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں وہ تجھ سے جدا ہوجاتی اور یہ کارروائی معصیت ہوتی۔ (السنن الکبریٰ:۷/۳۳۴، سنن دارقطنی :۲/۴۳۸) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین طلاقیں دے چکنے کے بعد پھر رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ :۲۰۰۶ء ، ص۲۹) اگر فقہی جمود کو چھوڑ کر طلاقِ ثلاثہ کے مسئلہ پر تحقیق کی جاتی تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے اکٹھی تین طلاقوں کے تین ہونے پر ہرگز استدلال نہ کیا جاتا، کیونکہ اکٹھی تین طلاقوں کے موقف کی تردید اسی حدیث میں موجود ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک طلاق حیض کی حالت میں دے دی تھی اور دیگر دو طلاقوں کو بھی وہ متفرق طور پر دو حیض یا دو طہر میں دینے کا ارادہ رکھتے تھے، حدیث ِمذکور کے آغاز میں اس طریقہ طلاق کی صراحت موجودہے،