کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 45
’’اگر دفعتہً تین طلاقیں حرام ہوتیں اور تین کا شرعاً اعتبار نہ ہوتا اور تین طلاقیں ایک تصور کی جاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس کا حکم ارشاد فرماتے اور کسی طرح خاموشی اختیار نہ فرماتے۔‘‘ (ماہنامہ ’الشریعہ‘: جولائی ۲۰۰۶ء) حضرت عویمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ طلاق ثلاثہ کی بجائے دراصل لعان کا واقعہ ہے اورحدیث ِلعان سے طلاقِ ثلاثہ کے وقوع پر استدلال کرناانتہائی کمزور دلیل ہے کیونکہ لعان کرنے سے میاں اور بیوی کے درمیان ہمیشہ کے لئے جدائی اور علیحدگی واقع ہوجاتی ہے کہ جس کے بعد وہ کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ: ثم لا یجتمعان أبدا (لعان کے بعد وہ کبھی بھی اکٹھے نہیں ہوسکتے) اسی کی تائید کرتے ہیں ، لہٰذا لعان کے بعد حضرت عویمر رضی اللہ عنہ کا اس عورت کو طلاق دینا ایسے ہی لغو (رائیگاں ) تھا جیسے راہ چلتی کسی اجنبی عورت کو تین طلاقیں دے دینا عبث ہے۔ کیونکہ لعان کے بعد وہ عورت طلاق کا محل ہی نہیں رہتی۔اور لعان سے ہونے والی جدائی ایک یا ایک سے زیادہ طلاقیں دینے کی قطعاً محتاج نہیں ہے۔ رہا یہ سوال کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عویمر رضی اللہ عنہ کے اس فعل پرخاموش رہے ہیں ، اگر دفعتہً تین طلاقیں دینا حرام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی خاموشی اختیار نہ کرتے۔ تو اس کا جواب حنفی مذہب کے ممتاز عالم شمس الائمہ سرخسی نے اپنی تالیف المبسوط میں دیا ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے از راہِ شفقت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ کی بات پر انکار نہ فرمایا، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ وہ غصے میں ہے اور اگر غصہ کی بنا پر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ مانی تو کافر ہوجائے گا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار کو مؤخر فرما دیا اور ’’فلا سبـیل لک علیہا‘‘ (تجھے اب اس پر کوئی اختیار باقی نہیں رہا) کہہ کر اس فعل کی تردید کردی۔ نیز یہ کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا اس لئے ناجائز ہے کہ اس سے تلافی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور لعان کی صورت میں تو تلافی کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔‘‘ (بحوالہ ’تین طلاقیں ‘ از مولانا محمد قاسم خواجہ: ص۱۱۶ ) اوراگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی کو یہاں رضا پر محمول کرلیاجائے، جیسا کہ مضمون نگار کا خیال ہے، پھر تو تین طلاقیں اکٹھی دینا بدعت بھی نہیں رہے گا۔ جبکہ حنفی مذہب میں بھی تین طلاقیں دفعتہً اکٹھی دینے کو بدعت کہا گیا ہے۔ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی رضا کے اظہار کے لئے نہیں تھی بلکہ اس لئے تھی کہ اس کا یہ فعل بے محل ہونے کی وجہ سے عبث