کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 44
نہیں ۔ لہٰذا اس میں لفظ ثلاثا کو دفعتہً اکٹھی تین طلاق پر محمول کرنا تحکم اور سینہ زوری کے سوا کچھ نہیں ۔ بنا بریں اس میں ثلاثا کے لفظ سے وہی طلاق مراد ہے جو مباح اور حسن ہے اور جو وقفے وقفے سے تین طہروں میں دی جاتی ہے۔ 4. تین طلاق کو تین قرار دینے والوں کی طرف سے محمود بن لبید کی وہی حدیث پیش کی جاتی ہے جس کے الفاظ بمع ترجمہ ابھی ذکر ہوئے ہیں اور اس سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے: ’’اس صحیح روایت سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ دفعتاً تین طلاقیں دینا پسندیدہ امر نہیں ورنہ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو اس پر سخت ناراض ہوتے اور نہ ہی یہ ارشاد فرماتے کہ میری موجودگی میں اللہ کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود ناراضگی کے ان تینوں کو اس پر نافذ کردیا۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ: جولائی ۲۰۰۶ء) یہ بالکل غلط بات ہے کہ ایک کام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوں حتیٰ کہ ایک آدمی ایسے طلاق دہندہ کو قتل کرنے کی اجازت مانگے اور پھر وہ تین طلاقیں نافذ بھی کردی جائیں ، یہ نہیں ہوسکتا، ورنہ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ناراض ہونا بے معنی ہوکر رہ جاتاہے۔ یہ کبھی نہیں ہواکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام پر سخت ناراض ہوئے ہوں اور اسے کتاب اللہ کے ساتھ مذاق قرار دیا ہو اور پھر اسے نافذ بھی کردیا ہو، امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’وکیف یظن برسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم أنہ أجاز عمل من استھزأ بکتاب اللّٰه وصححہ و اعتبرہ في شرعہ وحکمہ ونفذہ وقد جعلہ مستھزئً ا بکتاب اللّٰه تعالیٰ‘‘ (إغاثۃ اللھفان : ۱/۳۱۵) ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیاجاسکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتاب اللہ کا مذاق اُڑانے والے شخص کے کام کو جائز اور صحیح بنا دیں یا شریعت میں اس کا اعتبار کرتے ہوئے اسے نافذ کردیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کتاب اللہ کا مذاق اُڑانے والا کہا ہے تو اب اس کی دی ہوئی طلاقوں کا اعتبار کیونکر ہوسکتاہے؟‘‘ 5. ان کی پانچویں دلیل حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کونافذ کردیا۔(سنن ابوداؤد)