کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 43
’’لیس فیہ أنہ طلَّقھا ثلاثا بفم واحد فلا تدخلوا فیہ ما لیس فیہ‘‘ ’’’حدیث ِعائشہ رضی اللہ عنہا میں یہ ذکر نہیں ہے کہ اس نے یکبار اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں ، لہٰذا جس چیز کا حدیث میں ذکر نہیں ، اسے اس میں داخل نہیں کرنا چاہئے۔ ‘‘ (إغاثۃ اللھفان: ۱/۳۱۳) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث سے اکٹھی تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کو باطل قرار دیا ہے۔ (فتح الباری: ۹/۴۶۸) 3. ان حضرات کی تیسری دلیل یہ حدیث ہے کہ ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص ایک عورت سے نکاح کرتا ہے اور اس کے بعد اس کو تین طلاقیں دے دیتا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ عورت اس شخص کے لئے حلال نہیں ہے، جب تک کہ دوسراخاوند اس سے لطف اندوز نہ ہوجائے جس طرح کہ پہلا خاوند اس سے لطف اُٹھا چکا ہے۔ (مسلم:۱/۴۶۳) اس حدیث میں بھی لفظ ثلاثا بظاہر اسی کا مقتضی ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی دفعتہً دی گئی ہوں ۔‘‘ (’الشریعہ‘ جولائی ۲۰۰۶ء : ص۲۸) میں کہتا ہوں کہ اگر اس حدیث میں ثلاثًاکے لفظ سے تین طلاقیں اکٹھی دینامراد ہوتا تو حدیث ِمذکور میں اس کے ساتھ جمیعًا کا لفظ بھی ذکر ہوتا، جیساکہ محمود بن لبید کی حدیث میں جمیعًا کا لفظ ذکر کرکے تین طلاق کے اکٹھی اور دفعتہً ہونے کی صراحت کی گئی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ ملاحظہ ہوں : ’’عن محمود بن لبید قال: أخبر رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم عن رجل طلَّق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعًا فقام غضبانًا،ثم قال أیُلعب بکتاب اللّٰه وأنا بین أظھرکم حتی قام رجل وقال:یا رسولﷲ،ألا أقتلہ‘‘(سنن نسائی:ج۲/ ص۴۶۸) ’’حضرت محمود بن لبید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپتہ چلا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دے دی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ کی حالت میں اُٹھے اور فرمایا: کیامیرے ہوتے ہوئے اللہ کی کتاب سے کھیلا جارہاہے، یہ سن کر ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اسے قتل نہ کردوں ۔‘‘ دیکھئے، جس آدمی نے تین طلاقیں اکٹھی دی تھیں ، اسے ذکر کرتے ہوئے ثلاث کے لفظ کے ساتھ جمیعًا کا لفظ بھی ذکر ہوا ہے۔ جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ِمذکور میں ایسا کوئی لفظ