کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 42
کرلے اور لطف اندوز نہ ہوجائے۔‘‘ (بخاری :۲/۷۹۱، مسلم:۱/۴۶۳، السنن الکبریٰ:۷/۳۳۴) مضمون نگار لکھتے ہیں : ’’اس حدیث میں ’’طلَّق امرأتہ ثلاثًا‘‘ کے جملہ کی تشریح میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ جملہ ظاہراً اسی کو چاہتا ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی اور دفعتہً دی گئی تھیں ۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ، جولائی ۲۰۰۶ء، ص ۲۸) یہ حدیث دراصل رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی حدیث کا اختصار ہے۔ اسی لئے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی مفصل حدیث کے بعد ذکر کیاہے اور حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی اور دفعتہً نہیں دی تھیں بلکہ متفرق طور پر وقفے وقفے سے تین طلاقیں دی تھیں اور اسی کے لئے اس حدیث میں ثلاثًا کا لفظ استعمال ہوا ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کتاب اللباس میں جب اس حدیث کو لائے ہیں تو وہاں وضاحت موجود ہے کہ حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ نے یکے بعد دیگرے وقفہ کے ساتھ تین طلاقیں دی تھیں ، حدیث کے الفاظ یوں ہیں : عن عائشۃ أن رفاعۃ القرظي طلَّق امرأتہ فبَتَّ طلاقھا فتزوجھا بعدہ عبدالرحمٰن بن الزبیر فجاء ت النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم فقالت: یا رسول اللّٰه ! إنھا کانت عند رفاعۃ فطلَّقھا آخرثلث تطلیقات۔۔۔)) (صحیح بخاری: جلد۲/ ص۸۹۹) یہاں ’’فطلقھا آخر ثلث تطلیقات‘‘ کے الفاظ واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ رفاعہ رضی اللہ عنہ نے تین طلاقیں وقفے وقفے سے دی تھیں ، پہلے دو طلاقیں دی جاچکی تھیں اور اب تیسری طلاق بھی دے دی جو آخری ہے اور اسی کو بتۃ طلاق کہا گیا ہے اور آخرثلث تطلیقات کے یہ الفاظ صحیح مسلم (حدیث ۱۴،۳۵۱۳) اور سنن کبریٰ از بیہقی (جلد ۷/ ص ۳۷۴) پربھی اس حدیث میں موجود ہیں جو تین طلاق کے متفرق طور پر دئیے جانے کی واضح دلیل ہیں اور اگر اس حدیث کو رفاعہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا اختصار نہ بھی ماناجائے تب بھی اس میں آنے والے ثلاثًا کے لفظ کوطلاقِ بدعت پر نہیں بلکہ طلاقِ حسن پر محمول کرناچاہئے، کیونکہ جداجدا دی ہوئی تین طلاقوں کے لئے لفظثلاثا کا استعمال قرآن و سنت اور لغت و عرف ہر اعتبار سے درست ہے اور اس حدیث میں اکٹھی تین طلاقیں دینے کا کوئی قرینہ بھی نہیں ہے۔ امام ابن قیم جوزیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :