کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 41
بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ﴾ (البقرۃ:۲۳۰) اور اس سے استدلال یوں کیا جاتاہے کہ یہاں حرف ’فا‘ ہے جو اکثر تعقیب بلامہلت کے لئے آتا ہے۔ جس کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ دو کے بعد اگر کسی نادان نے تیسری طلاق بھی فی الفور دے دی تو اب اس کی بیوی اس کے لئے حلال نہیں ہے جب تک وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ایک ہی مجلس اور ایک ہی جگہ میں تین طلاقیں دی جائیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیت کی تفسیر میں دفعتہً تین طلاقیں دینا بھی داخل ہے۔ (ماہنامہ ’الشریعہ‘ جولائی ۲۰۰۶ء، ص۲۸) لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت سے قبل آنے والی آیت ِکریمہ ﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِإحْسٰنٍ﴾(البقرۃ:۲۲۹)میں دو طلاقوں سے مراد کون سی طلاق ہے؟ جب ان دو طلاقوں سے مراد رجعی طلاقیں ہیں جو وقفے وقفے سے دی جاتی ہیں ، یکبارگی نہیں تو اس پر مرتب ہونے والی تیسری طلاق جو اس آیت میں ذکر ہوئی ہے: ﴿فَإِنْ طَلَّقَھَا فَـلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ﴾سے بھی وہ تیسری طلاق مراد ہوگی جو دوسری طلاق کے بعد فی الفور نہیں بلکہ وقفہ کے بعد تیسرے طہر میں دی گئی ہو۔ جب یہ آیاتِ کریمہ وقفے وقفے سے تین طہروں میں دی جانے والی طلاقوں کے حکم کو بیان کرنے کے لئے ہیں تو اس میں دفعتہً / یکبار تین طلاقیں دینا داخل نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک ہی آیت ِکریمہ دو متضاد مفاہیم کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ باقی رہا یہ کہنا کہ یہاں حرف ’فا‘ ہے جو تعقیب بلامہلت کے لئے آتا ہے تو اس کا جواب مضمون کے سابقہ حصہ میں تفصیل سے ذکر ہوچکا ہے۔ 2. ایک مجلس میں طلاقِ ثلاثہ کے وقوع کے قائلین دوسری دلیل کے طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں : ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ، سو اس نے کسی اور مرد سے نکاح کیا اور اس نے ہم بستری سے پہلے اسے طلاق دے دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا: کیا وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے ہم بستری نہ