کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 4
ملک کے ممتاز اور جید علما (جو کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں ہیں ) کا موقف پہلے بھی یہ تھا کہ حکومت کا تیار کردہ بل خلافِ اسلام ہے، اگر اس بل میں یہ تین ترامیم کردی جائیں تو بل کی خامی میں قدرے کمی واقع ہوسکتی ہے، لیکن وعدے کے باوجود ان ترامیم کو نظرانداز کیا گیا۔ اب ۱۵/ نومبرکو منظور ہونے والے بل کے بارے میں بھی ملک بھر کے تمام علماے کرام کا متفقہ موقف یہی ہے کہ یہ بل اسلام سے متصادم ہے۔یاد رہے کہ اس بل کے خلافِ اسلام ہونے پر کسی ایک عالم دین یا کسی دینی حلقہ کا بھی آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حتیٰ کہ حدودآرڈیننس پر شدید تنقید کرنے والے دانشور بھی اس بل کے غلط ہونے پر علماے کرام کے ہم نوا ہیں ، اسکے باوجود حکومت لگاتار اپنے دعوے اور ’فتوے‘ پر ہی مصر ہے!! تحفظ حقوق نسواں بل میں خلافِ اسلام ترامیم بل کی ترمیم نمبر۷ کے الفاظ یہ ہیں : ’’۴۹۶ب) زنا :1. ایسے مرد اور عورت جن کی آپس میں شادی نہ ہوئی ہو، اگر رضامندی سے جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں تو وہ زنا کے مرتکب ہوں گے۔ 2. زنا کے مرتکب مرد وعورت کو جو سزا دی جائے گی، وہ زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید ہوسکتی ہے اور اُنہیں ۱۰ ہزار روپے تک جرمانے کی سزا دی جائے گی۔٭ ۴۹۶ج) زنا کے جھوٹے الزام کی سزا: جو کوئی بھی کسی شخص کے خلاف زنا کا جھوٹا الزام لگائے یا گواہی دے وہ زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک قید اور زیادہ سے زیادہ ۱۰ہزار روپے کے جرمانے کا مستوجب ہوگا۔‘‘ تبصرہ:1. اس ترمیم کے ذریعے تعزیراتِ پاکستان میں دو دفعات کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ٭ مذکورہ بالا ترمیم ان چار ترامیم میں سے پہلی ہے جنہیں ۱۵ نومبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شامل کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ زیر نظرمضمون کے تمام اقتباسات ’تحفظ ِخواتین بل۲۰۰۶ء‘ کے مصدقہ اور تازہ ترین متن سے ماخوذ ہیں ۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ بل کے اُردو متن میںزنا کی سزا غائب کردی گئی ہے جو مستند انگریزی متن میں موجود ہے، البتہ یہ سزا اُردو وانگریزی، ہر دو متنوں میں ترمیم نمبر۹ کے جدول ہشتم میں بھی جرم ’زنا‘ کی سزا والے خانہ نمبر۷ میں (یعنی زیادہ سے زیادہ ۵ سال قید اور ۱۰ ہزار روپے جرمانہ ) ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔