کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 39
عارضے اور شدید ڈیپریشن کی وجہ سے بہت زیادہ ہائی پوٹینسی کی گولیاں استعمال کرتا ہوں ) ہمارا جھگڑا ہوا اور میری بیوی، بچوں نے بہت زیادہ پریشان کیا اور کچھ میں شدید ڈیپریشن کا شکار تھا اور دوائی بھی لی ہوئی تھی اور اس حالت میں میری ذہنی حالت بہت زیادہ متاثر تھی۔ میں نے اپنے بیوی کو اپنے خیال میں دوسری طلاق دی، لیکن میری بیوی اور بچے جو اس وقت سامنے موجود تھے، کہتے ہیں کہ میں نے طلاق نہیں دی تھی، صرف بستر الگ کرنے کا کہا تھا جبکہ بیوی کہتی ہے کہ میں نے دوسرے دن صبح کچن میں اسے طلاق دی تھی اور مجھے اس کا بالکل یاد نہیں کہ میں نے طلاق دی تھی۔ میری بیوی بھی مائیگرین (سردرد) کی دائمی مریضہ ہے۔ میری حالت بیماری اور زیادہ ادویات کے استعمال سے اس طرح کی ہوچکی ہے کہ میری یادداشت بہت کمزور ہوچکی ہے اور بعض اوقات ہاتھ میں پکڑی چیز گر جاتی ہے۔ میری بیوی نے کہا کہ تم نے طلاق دی تھی۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، اگر میں نے طلاق دی تھی تو میں رجوع کرتا ہوں ۔ پھر ہم نے نو دس دن بعد رجوع کرلیا۔ لیکن پھر ۱۹جون ۲۰۰۶ء میں جبکہ بیوی پاکستان گئی ہوئی تھی، ہماری فون پر آپس میں تو تکار ہوئی۔ میں نے اپنی بیوی سے کہہ رکھا تھا کہ تم نے اگر میری بات نہ مانی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا اور پھر میں نے اپنی بیوی کو فون پر طلاق دے دی اور میری ذہنی حالت بیماری کی وجہ سے بہت متاثر تھی اور ادویات کابھی اثر تھا۔میری اس صورتِ حال میں شریعت ِمطہرہ میں میرے لئے کیا حکم ہے؟ ( معروف حسن احمد، مانچسٹر) جواب: صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ دوسری طلاق کے وقت شوہر کا ذہنی توازن درست نہ تھا، ایسی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوئی۔ صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے: لیس لمجنون ولا لسکران طلاق ’’دیوانے اور نشئ کی طلاق قابل اعتبار نہیں ۔‘‘ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ طلاق السکران والمستکرہ لیس بجائز ’’ نشئی اور مجبور شخص کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔‘‘ الغرض جب شدتِ مرض کی بنا پر آدمی کے ہوش حواس قائم نہ ہوں تو طلاق شمار نہیں ہوگی۔ عقل و شعور کی مضبوطی کی صورت میں ہی طلاق واقع ہوتی ہے جبکہ محل بحث میں معاملہ برعکس ہے۔ اور تیسری طلاق کا معاملہ بھی دوسری طلاق سے مختلف نظر نہیں آتا، البتہ اگر اس کا وقوع عقل و شعور سے ہوا ہے تو پھر شمار ہوگی، بہرصورت رجوع کی گنجائش موجود ہے۔