کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 36
کیا حیض ختم ہوجانے کے باوجودغسل کرنے تک عدت برقرار رہتی ہے؟ ٭ سوال:کیا خون حیض بند ہونے کے بعد جب تک عورت غسل نہ کرلے، عدت پوری نہیں ہوتی اور خاوند کو رجوع کا حق رہتا ہے، اگرچہ کئی سال تک وہ غسل نہ کرے؟ کیا حنابلہ کا یہ موقف صحیح ہے یا حیض ختم ہوتے ہی غسل کئے بغیر ہی حق رجوع جاتا رہتا ہے؟ جواب: کیا اس بارے میں فقیہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے المغنی (۱/۲۰۴) میں ابن حامد سے دو روایتیں ذکر کی ہیں ۔ ایک یہی جس کا ذکر سوال میں ہے اور دوسری روایت یہ ہے کہ انقطاعِ دم سے ہی عدت پوری ہوجاتی ہے۔ اُنہوں نے پہلی روایت کو اختیار کیا ہے کیونکہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کا مسلک یہی ہے، لیکن ترجیح دوسری روایت کو معلوم ہوتی ہے کیونکہ نصِ قرآنی کے مطابق تین قرؤ مکمل ہوچکے ہیں ، اسی لئے تو غسل واجب ہوا ہے اور نماز روزہ بھی واجب ہوگیا۔ واﷲ تعالیٰ اعلم! قُرُوْئ سے مراد حیض ہے یا طہر؟ ٭ سوال:سورۃ البقرہ کی آیت ۲۲۸ میں قروء سے مراد حیض ہے یا طہر؟ حنفیہ و حنابلہ نیز مالکیہ کے نزدیک بھی راجح قول یہی ہے کہ یہاں قرؤ سے مراد حیض ہے۔ خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی اسی کے قائل ہیں ۔ جواب: اس بارے میں سلف کا اختلاف ہے کہ یہاں قرؤ سے مراد حیض ہے یا طہر؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ قرؤ بمعنی طہر ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ جبکہ دوسری طرف خلفاے اربعہ اور کثیر تعداد صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ہے کہ قرؤ سے مراد حیض ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے اور احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اکابر صحابہ رحمۃ اللہ علیہ اسی کے قائل ہیں کہ قرؤ بمعنی حیض ہے ۔ لغوی طور پر لفظ قرؤ مشترک المعنی ہے اور علماے لسان عرب اور فقہاے عظام کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ قرؤ کے معنی حیض اور طہر دونوں ہیں ۔ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ آیت ِقرآنی میں قرؤ سے مراد حیض ہے،ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت ابی حبیش سے فرمایا تھا: (( دعي الصلوٰۃ أیام اِقرائک))(دارقطنی: رقم ۸۳۴) یعنی ’’ایامِ حیض میں نماز ترک کردیا کرو۔‘‘ اس سے یہ بات متعین ہوجاتی ہے کہ یہاں قرؤ سے مراد حیض ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: الشرح