کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 35
دار الافتاء شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی حیض اور عدت کا شمار؟ ٭ شدید ڈپریشن میں طلاق؟ حیض کے خاتمے پر، غسل سے قبل مباشرت کرنا؟ ٭ سوال: سورۃ البقرہ کی آیت ۲۲۲ یہ ہے :﴿وَلاَ تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی َیطْہُرْنَ﴾یعنی حیض سے پاک ہوجانے کے بعد وطی کی اجازت دی گئی ہے۔ اس آیت کی رو سے کیا غسل کے بغیر مباشرت حرام ہے، جیسا کہ اکثر اسلاف اسی کے قائل ہیں یا پاک ہونے کا مطلب محض خونِ حیض کا بند ہوجانا ہے، اگرچہ عورت نے غسل نہ بھی کیا ہو؟ (حافظ عبداللہ سلفی، ملتان روڈ، لاہور) جواب: جمہور اہل علم کا مسلک یہی ہے کہ انقطاعِ حیض کے بعد غسل سے فراغت کے بعد ہی بیوی سے وطی حلال ہوتی ہے۔ تاہم بعض سلف نے بایں صورت مخصوص مقام کو دھونے یا وضو وغیرہ کی صورت میں بھی وطی حلال قرار دی ہے۔ فقیہ ابن قدامہ نے المغنی (۱/۴۲۰) میں قرآنی الفاظ ﴿فَاِذَا تَطَھَّرْنَ﴾ کی تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یوں نقل کی ہے: یعني إذا اغتسلن’’جب عورت غسل کرلے۔‘‘ اگرچہ حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے المُحلّٰی (۱/۳۵۷،۳۵۶) میں دوسرا مسلک اختیار کیا ہے اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آداب الزفاف (صفحہ ۴۸) میں اسی مسلک کو دلائل سے قریب ترقرار دیا ہے لیکن میرے نزدیک جمہور کا مسلک راجح ہے۔ احادیث فاطمہ بنت ِابی حبیش وغیرہ جو اس بارے میں صریح ہیں ،سے بھی اسی امر کی تائید ہوتی ہے۔ دوسرا مذہب اضطراری حالت پر محمول ہوگا۔ وﷲ تعالیٰ أعلم بالصواب اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ دس روز سے پہلے اگر عورت حیض سے پاک ہوجائے تو غسل کے بعد وطی کا جواز ہے اور اگر دس روز کے بعد فارغ ہو تو بلا غسل بھی وطی جائز ہے، حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ اور مفسر قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو بلا دلیل قرار دیا ہے جس کی کوئی معقول وجہ نہیں ۔