کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 33
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شادی شدہ زانی کو رجم کی بجائے صرف سو کوڑوں کی سزا دی ہو۔ اس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ شادی شدہ زانی کیلئے حد رجم سنت کی نص سے ثابت ہے۔ قرآنِ مجید میں اس کا واضح ذکر نہ آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ حد شرعی نہیں ہے بلکہ اس حد کا انکار باطل اور گمراہی ہے۔ 3. حد ِ رجم کے بارے میں خلفاے راشدین کا طرزِعمل خلافت ِ راشدہ کے دور ِ مسعود میں بھی عہد ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سنت کے مطابق زنا کے بارے میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کا فرق ملحوظ رکھا گیا اور کنوارے یا شادی شدہ کی اس تفریق کو ایک سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے تسلیم کرکے محصن زانی پر حد ِ رجم نافذ کی گئی۔ ذیل میں ہم اس سلسلے میں چند شواہد پیش کرتے ہیں : 1. عن ابن عباس قال: خطب عمر بن الخطاب، فحمدﷲ تعالیٰ وأثنی علیہ فذکر الرجم، فقال: ’’لا تخدعن عنہ، فإنہ حد من حدود اللّٰه تعالی ألا إن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قد رجم ورجمنا بعدہ۔ ولو لا أن یقول قائلون زاد عمر في کتاب اللّٰه عزوجل ما لیس منہ لکتبتہ في ناحیۃ المصحف‘‘ (مسند احمد بن حنبل مع شرح احمد محمد شاکر: ۱/۲۳۲، طبع مصر ۱۳۶۸ھ،اسنادہ صحیح) ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا جس میں پہلے اللہ کی حمدوثنا بیان کی اور پھر رجم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’لوگو! تمہیں اس کے بارے میں دھوکے میں مبتلانہیں ہوناچاہئے۔ یہ اللہ کی حدود میں سے ایک حد ہے۔ آگاہ رہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی بعد میں رجم کیا اور اگر لوگوں کے لئے یہ کہنے کا موقع نہ ہوتا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے خداے عزوجل کی کتاب میں اضافہ کردیا ہے تو میں ضرور اس (رجم) کو قرآن کے حاشئے میں درج کردیتا۔‘‘ 2. عن ابن عباس قال: قال عمر:’’لقد خشیت أن یطول بالناس زمان حتی یقول قائل: لا نجد الرجم في کتاب اللّٰه فیضلوا بترک الفریضۃ أنزلھا اللّٰه ، ألا وإن الرجم حق علی من زنیٰ وقد أحصن إذا قامت