کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 32
في السوق فمرت امرأۃ تحمل صبیا فثار الناس معہا وثرت فیمن ثار وانتہیت إلی النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم وہو یقول: (( من أبو ہذا معک؟)) فسکتت فقال شاب حذوہا: أنا أبوہ یا رسول اللّٰه ! فأقبل علیہا فقال: (( من أبو ہذا معک؟)) فقال الفتی أنا أبوہ یا رسول اللّٰه ! فنظر رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم إلی بعض من حولہ یسألہم عنہ، فقالوا: ما علمنا إلا خیرا۔فقال لہ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ((أحصنت؟))قال نعم،فأمر بہ فرُجم(ابوداود:۴۴۳۵،مسنداحمد:۳/۴۷۹،قال الألبانی وحمزۃ الزین حسن الإسناد،انظر:صحیح ابو داود:۳۷۲۸وتحقیق مسند احمد: ۱۲/۳۷۸) ’’خالدبن لجاج ، لجاج رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ بازار میں بیٹھے کام کر رہے تھے، اسی اثنا میں ایک عورت بچہ اٹھائے اُدھر آ نکلی۔ لوگ اس کی طرف لپکے۔ میں بھی اس طرف چلا گیا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پوچھ رہے تھے:اس بچے کا باپ کون ہے؟ تو وہ خاموش تھی۔ ایک نوجوان جو اس کے برابر کھڑا تھا، کہنے لگا: اللہ کے رسول میں اس کا باپ ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورت کی طرف متوجہ ہوئے اورپوچھنے لگے: اس کا باپ کون ہے ؟ وہی نوجوان کہنے لگا: اللہ کے رسول میں اس کا باپ ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارد گرد کے بعض لوگوں سے اس نوجوان کے متعلق استفسار کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ ہمارے علم کے مطابق تو یہ آدمی ا چھا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان سے پوچھا کہ تم شادی شدہ ہو؟ اس نے اثبات میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے رجم کر دیا گیا۔‘‘ ان تمام احادیث کی روشنی میں جو علم حدیث کی اصطلاح میں ’متواتر معنوی‘ کا درجہ رکھتی ہیں ، یہ امربالکل واضح ہوجاتا ہے کہ سنت ِمطہرہ نے محصن زانی کے لئے رجم کی سزا مقرر کی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مقدماتِ زنا میں ملزم کے عاقل ہونے کے ساتھ ان کی حالت ِاحصان کو من جملہ ان شرائط کے پیش نظر رکھا ہے جن کے ثبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حد رجم کانفاذ فرمایا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ دورِ رسالت کے کسی ایک مقدمہ زنا کی روداد میں بھی یہ بات نہیں ملتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ملزم کی ’غنڈہ گردی‘ پر رجم کی سزا آیت ِحرابہ کے تحت نافذ کی ہو اور نہ ایسی کوئی حدیث ملتی ہے جس میں آپ نے کسی کنوارے زانی کو اس کے’غنڈہ‘ ہونے کی بنا پر رجم کی سزا دی ہو۔ کوئی ایک حدیث بھی اس بات کے ثبوت میں پیش نہیں کی جاسکتی جس