کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 3
منظورکرانا اپنا اوّلین ہدف قراردیاتاکہ اپنے نظریاتی حامیوں کی کلی تائید اور بیرونی حمایت حاصل کی جاسکے۔ میڈیا کے یکطرفہ پروپیگنڈے اور ملک میں فردِ واحد کے اقتدار کے بل بوتے پر ایک ایسا قانون پاکستان کی پارلیمنٹ سے منظور ہوا، جو نہ صرف اسلام اور دستورِ پاکستان سے متصادم ہے بلکہ اس میں مسلم معاشرے کی تہذیبی روایات اور مسلمہ اقدار کو پامال کرنے کی کھلم کھلاجسارت بھی کی گئی ہے۔ پہلے تو ’حدود قوانین‘ کو مسلسل کئی ماہ میڈیا پر ٹرائل کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر جولائی/اگست میں اقتدار کے ایوانوں میں اس پر بحث مباحثہ شروع ہوا، اور ۲۱/اگست۲۰۰۶ء کو اسے قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا۔ اس بل کا اصل نام تو ’فوجداری ترمیمی بل۲۰۰۶ء‘ تھا، لیکن خواتین کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے سلیکٹ کمیٹی کی اوّلین ترمیم کی روسے اس کا نام ’تحفظ ِخواتین بل۲۰۰۶ء‘ رکھنا قرار پایا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے کا سارا بل زنا کی شرعی سزا میں ترمیم وتخفیف کے گرد ہی گھومتا ہے۔ بل کی ۲۹ ترامیم ہیں جن کے ذریعے ۲۲/ دفعات پر مشتمل ’حد زنا آرڈیننس۱۹۷۹ء‘ کی ۱۲ دفعات کو منسوخ اور ۶ کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ ایسے ہی اس بل کے ذریعے ’حد قذف آرڈیننس‘ کی ۲۰ دفعات میں سے بھی ۸ کو منسوخ اور ۶ میں حذف و ترمیم تجویز کی گئی ہے جس کے بعد حد زنا آرڈیننس میں محض ۴ دفعات اور حد قذف آرڈیننس میں محض ۶دفعات اپنی اصل صورت میں ، صحیح سالم باقی رہ گئی ہیں ۔ قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد بل کو سلیکٹ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا، ۱۵/رکنی سلیکٹ کمیٹی نے ۴ستمبر کو اس میں ۸ ترامیم تجویز کیں ۔ انہی دنوں حکومت کی دعوت پر ملک کے ممتاز علما نے ۱۱/ستمبر کو تین ابتدائی ترامیم پیش کیں ۔ حکومت نے اُنہیں بل میں شامل کرنے کا نہ صرف وعدہ کیا بلکہ انہیں شامل کرنے کا خو ب ڈھنڈورا بھی پیٹا، لیکن مقامِ افسوس ہے کہ اسمبلی سے منظور ہونے والے حالیہ بل میں ، ان میں سے ایک ترمیم بھی شامل نہیں کی گئی۔ دوسری طرف ۱۳/نومبر کومختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس بل میں مزید ۴ ترامیم تجویز ہوئیں اور آخر کار ۱۵/ نومبرکو سلیکٹ کمیٹی کی ۸ ترامیم سمیت، ۱۳/نومبر کی مزید ۴ ترامیم شامل کرکے قومی اسمبلی نے حدود قوانین میں ترمیم کا بل پاس کرلیا۔