کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 26
کسی کو قتل کردے تو اس پر اسے بھی (قصاص کے طور پر) قتل کردیا جائے گا۔‘‘ 5. عن أبي أمامۃ بن سھل قال: کنا مع عثمان وھو مع عثمان وھو محصور في الدار، وکان في الدار مدخل من دخلہ سمع کلام من علی البلاط، فدخلہ عثمان، فخرج إلینا وھو متغیر لونہ فقال: إنھم لیتواعدونني بالقتل آنفا، قال: قلنا یکفیکم اللّٰه یا أمیر المؤمنین قال: ولم یقتلونني؟ سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یقول: (( لا یحل دم امرئ مسلم إلا بإحدی ثلاث: کفر بعد إسلام، أو زنا بعد إحصان، أو قتل نفس بغیر نفس)) فوﷲ ما زنیت في جاھلیۃ ولا في إسلام قط، ولا أحببتُ أن لي بدینی بدلا منذ ھداني اللّٰه ، ولا قتلت نفسا، فبم یقتلوننی؟ ’’حضرت ابوامامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور دوسرے لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے جب وہ اپنے گھر میں محصور تھے اور اس گھر کا ایک راستہ تھا جس کے اندر کھڑا آدمی مقام بلاط پرکھڑے لوگوں کی بات بآسانی سن سکتا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لائے، ان کے چہرے کا رنگ متغیر تھا، وہ باہر نکلے اور فرمایا: ابھی یہ لوگ مجھے قتل کردینے کی دھمکی دے رہے تھے۔‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’اے امیرالمؤمنین ان کے مقابل میں اللہ تعالیٰ آپ کو کافی ہے۔ ‘‘ فرمایا: ’’ یہ لوگ کیوں میرے قتل کے درپے ہیں ؟‘‘ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ، سواے اس کے کہ تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت واقع ہو: وہ اسلام لانے کے بعد کفر اختیارکرے یا شادی کے بعد زنا کا ارتکاب کرے یا کسی کوناحق قتل کردے۔ اللہ کی قسم! میں نہ تو جاہلیت میں زنا کا مرتکب ہوا اور نہ اسلام لانے کے بعد، دوسرے یہ کہ میں نے اپنا دین بدلنا بھی کبھی پسند نہیں کیا، جب سے مجھے اللہ نے ہدایت کی توفیق دی ہے۔ تیسرے یہ کہ میں نے کسی کو ناحق قتل بھی نہیں کیا، پھر یہ لوگ کس بنا پر قتل کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘ ( ابو داود:۴۵۰۲،قال الالبانی:’صحیح‘ ) ٭ ان فرامین ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ازروے سنت شادی شدہ زانی کے لئے کوڑوں کی بجائے قتل بصورتِ رجم کی سزا مقرر ہے۔