کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 23
ناکامی کے ساتھ ہی سزا کا ’فوری‘ فیصلہ سنادیا جائے گا۔ 7. یاد رہے کہ دیگر۷ جرائم کے عین برعکس یہ آخری چاروں جرائم قابل ضمانت بھی ہیں اور قابل معافی بھی، اس لئے اگر کوئی ملزم اس قدر ’بدقسمت‘ ہے کہ آخرکار قانون کی گرفت میں آہی گیا ہے اور اسے زنا بالرضا کے جرم میں ایک دوسال کی قید ہونے والی ہے یا زنا کی شرعی سزا سنگساری یا کوڑوں کا فیصلہ ہوگیا ہے تو قانون بنانے والوں کی اس کی یاسیت اور محرومی کا پورا احساس ہے ، اس لئے اس کو ضمانت پر آزاد رکھا جائے اور بامر ضرورت اس کو معاف ہی کردیا جائے۔ اس کے بعد کیا ان جرائم کی سزاؤں میں اگر اصلاح بھی کر دی جائے تو اس نامعقول طریقہ کار کے باعث کسی مجرم کو زنا کی سزا ملنا ممکن ہے۔ البتہ زنا کے ملزمان کو سزا دلواتے دلواتے کئی شکایت کنندگان ضرور تہمت کی سزا پالیں گے۔ 8. ترمیم نمبر۱۲/الف کی رو سے ان چار جرائم کی سماعت میں یہ امر ملحوظ رکھا جائے کہ کسی ایک جرم کی کاروائی کو کسی مرحلہ پر دوسرے جرم کے تحت نہ بدلا جائے۔ مثال کے طورپر اگر کوئی شخص زنا کی شرعی سزا دلوانے کا مقدمہ درج کرانے میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے لیکن بعد ازاں ۴ گواہوں کی بجائے سماعت کے دوران اسے تین گواہ ہی میسر آتے ہیں تو اس بنا پر وہ زنا بالرضا کے مقدمے کی سزا نہیں دلوا سکے گا کیونکہ اس بل کی رو سے اس کی سزا کے لئے صرف دو گواہ بھی کافی ہیں ۔کیا ان ترامیم سے ان چار جرائم کا خاتمہ مقصود ہے یا محض ان کی نمائش ؟ طریقہ کار میں رکاوٹوں کی فہرست 1. یہ چار جرائم پولیس کے دائرۂ اختیار سے باہر او رکسی شکایت کنندہ کی کوشش پر منحصرہیں ۔ 2. مقدمہ کے اندراج کے وقت ہی ۲ یا ۴ گواہوں کی حلفیہ عینی گواہی ضروری ہے۔ 3. گواہی کے باوجود زنا کے مقدمے کی سماعت کا فیصلہ کرنا جج کی صوابدیدپر منحصر ہے۔ 4. تہمت کا فیصلہ جج کے صوابدیدی اختیارات میں شامل ہے،جسے ’فوری‘عمل میں لایا جائے۔ 5. ملزم کی حاضری کیلئے سمن بھیجے جائیں جسے یقینی بنانے کیلئے مالی ضمانت وغیرہ لینا درست نہیں ! 6. یہ جرائم قابل ضمانت ہیں ، اگر جرم ثابت ہوبھی جائے تو سزا سے قبل گرفتاری ضروری نہیں ۔ 7. یہ جرائم قابل معافی بھی ہیں ۔یہ ہے تحفظ ِحقوقِ نسواں بل کی حقیقت! (حافظ حسن مدنی)