کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 22
یہاں ملزم اورشکایت کرنے والوں کے مابین بھی عجیب امتیاز برتا جارہا ہے۔ شکایت کرنے والے وقوعہ کے خاتمے کے کئی گھنٹوں بعد،میلوں کا سفر کرکے آخر کار عدالت میں پیش ہونے میں کامیاب ہوہی جاتے ہیں ۔ ساتھ میں گواہ بھی ہمراہ لئے پھرتے ہیں اور ان کی تحریری حلفیہ گواہی بھی دلوا لیتے ہیں ۔ پھر جج صاحب کے صوابدیدی اختیارات سے بھی بخیر وعافیت بچ نکلتے ہیں اور جج ان پر تہمت کی سزا عائد کرنے کی بجائے بصد رعایت مقدمہ کے اندراج کا حکم دے دیتا ہے۔ تب بھی قانون کو ملزم صاحب کا اس قدر احترام دامن گیرہے کہ وہ ان کی عدالت میں حاضری یقینی بنانے کے لئے گرفتاری کے احکامات جاری کرنے کی بجائے محض سمن جاری کرنے پر ہی اکتفا کرے۔اور قابل صد احترام ملزم کی کمالِ عنایت و مہربانی کہ وہ شرافت سے عدالت میں تشریف لے آئے، وگرنہ عام طورپر تو ملزمان عدالتی سمنوں سے بڑا برا سلوک کرتے ہیں اور کئی مہینے ان کی وصولی میں ہی گزر جاتے ہیں ۔ ملزم کی حاضری یقینی بنانے کے لئے عدالتیں دوسروں کی ضمانت بھی حاصل کرتی ہیں لیکن زنا کے ملزم کو یہ خصوصی استحقاق بھی حاصل ہے کہ اس سے ذاتی مچلکہ کے ماسوا مزید کسی ضمانت کا تقاضا کرنا بھی غیرقانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ اس کے بعد کوئی بیوقوف یا انتہائی شریف، زنا کا ملزم ہی ہوگا جو قانون کے احترام میں ازخود عدالت میں حاضر ی دیتا رہے۔ 6. قانون بنانے والوں کی ذ ہنی رجحانات کی نشاندہی اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ان کی نظر میں زنا بالرضا اور تہمت کی سز ا ئیں بالکل برابر ہیں یعنی زیادہ سے زیادہ ۵ سال قید۔ لیکن اگر جرم کی سزا کے طریقہ کار پر غو رکیا جائے تو تہمت کی سزا زیادہ سنگین قرار پاتی ہے کیونکہ جج کے صوابدیدی اختیارات کے تحت بل میں اسے تو فی الفور نافذکرنے کا حکم دیا گیا ہے : ’’تہمت کے ملزم [دراصل شکایت کنندہ اور گواہ] کو اظہارِ وجوہ کا موقع فراہم ہونے کے بعد اگر عدالتی افسر صدارت کنندہ مطمئن ہو کہ اس دفعہ کے تحت جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے تو اسے [اپنے اطمینان کے ماسوا] مزید ثبوت کی ضرورت نہ ہوگی اورفی الفور فیصلہ سنانے کے لئے کاروائی عمل میں لائے گا۔‘‘ (ترمیم نمبر ۷ کا آخری پیرا گراف) اس کا مطلب یہ ہوا کہ زنا کے ملزم کو تو سمن بھیج کربلایا جائے گا، جہاں اس کے لئے قانون سے بچنے کے مزید امکانات موجود ہیں ، لیکن قذف کے مجرم کو اندراجِ مقدمہ میں