کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 21
معاونت ہے کیونکہ جرائم کی روک تھام اور اس کی خلاف ورزی کی شکایت کرنا دراصل پولیس ہی کی ذمہ داری ہے۔ 4. ترمیم نمبر ۸ کی ذیلی دفعہ ۵ (الف) کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’اگر عدالت کا افسر صدارت کنندہ مستغیث اور گواہوں کے حلفیہ بیانات کے باوجود یہ فیصلہ دے کہ کارروائی کے لئے کافی وجہ موجود نہیں ہے تو وہ نالش کو خارج کرسکے گا۔‘‘ اب ترمیم نمبر ۲۱ کو پڑھئے کہ ’’عدالت کا افسر صدارت کنندہ مجرم کو بری کرتے ہوئے اگر مطمئن ہو کہ جرمِ قذف مستوجب ِحد کا ارتکاب ہوا ہے تو وہ قذف کا کوئی ثبوت طلب نہیں کرے گا اور حد قذف کے احکامات صادر کرے گا۔‘‘ ان ترامیم سے پتہ چلا کہ چار گواہوں کے بعد بھی زنا کے ملزم کی بریت تو جج کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے اور دوسری طرف مدعی پر از خود قذف کی سزا لاگو ہوجائے گی، اور اس صورت میں مدعی کے خلاف قذف کے کسی ثبوت یا عدالتی کاروائی کی ضرورت نہ ہوگی، محض جج کا ذاتی اطمینان ہی کافی ہوگا۔ ان ترامیم کی رو سے ایک طرف زنا کے ملزمان کو غیر معمولی تحفظ دیا جارہا اور ان کے خلاف رپورٹ کو مشکل تربنایا جارہا ہے اور دوسری طرف رپورٹ کرانیوالے پر قذف کی سزا لاگو کر نے کے لئے محض جج کا اطمینان کافی سمجھا جارہا ہے۔ اس ترمیم کا مقصد ومدعا واضح ہے، ملزم کو ظالمانہ ترجیح کس بنیاد پر اور رپورٹ کرنے والے کو ہراساں کیونکر کیا جارہا ہے؟یہ امتیاز اور ترجیح کیا اسلام اور قانون کے تقاضوں کے مطابق ہے ؟ 5. تحفظ ِخواتین بل کے آخری پیرا گراف کے الفاظ ہیں کہ ’’صرف سیشن کورٹ ہی مذکورہ مقدمات میں سماعت کا اختیار رکھتی ہے۔ اور یہ جرائم قابل ضمانت ہیں تاکہ ملزم دورانِ سماعت جیل میں یاسیت کا شکار نہ رہے۔ پولیس کو کوئی اختیار نہیں ہوگا کہ وہ مذکورہ مقدمات میں کسی کو گرفتار کرے۔ ‘‘ (پارلیمنٹ سے منظور شدہ مسودّہ قانون) مزید برآں ترمیم نمبر۹ میں تمام جرائم کی تفصیلات پر مبنی جدولوں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ۱۱ جرائم میں سے یہی آخری چار جرم ایسے ہیں جن میں وارنٹ گرفتاری جار ی نہیں کئے جائیں گے بلکہ عدالت اگر چار گواہوں کے باوجود مقدمہ کو قابل سماعت خیال کرتی ہے تو وہ ملزم کو حاضر ہونے کے سمن (اطلاع) بھیجنے پر ہی اکتفا کرے گی۔ (دیکھیں جدول ہشتم ونہم)