کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 20
بالمعروف ونہی عن المنکرکو مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ (سورۃ الحج: ۴۱) 2. عدالتوں کے اوقات تھانوں کے برعکس کافی محدود ہوتے ہیں ، ان کو مختلف نوعیت کی تعطیلات بھی ہوتی ہیں ، جبکہ مجرمان پہلے ہی جرم کے ارتکاب کے لئے مناسب وقت کا انتخاب کرتے ہیں ۔ ایسے ہی تھانوں کے برعکس سیشن عدالتیں ضلع بھر میں ایک ہی ہوتی ہیں ، پنجاب کے بعض اضلاع ۱۰۰ میلوں سے بھی زیادہ وسیع ہیں ، عدالتوں میں مقدمات کی کثرت بھی اکثر طوالت اور گواہی میں تاخیر کا سبب بن جاتی ہے۔ ان زمینی حقائق کی بنا پرکسی شخص کا میلوں سفر کرکے عدالتوں میں فوری شکایت درج کرانا گویا زنا کے اندراج کو عملاً ناممکن بنانا ہے۔ یوں بھی وقوعہ پر پولیس کا چھاپہ پڑنے سے کئی واقعاتی شہادتیں حاصل ہوجاتی ہیں اور طبی قرائن بھی مل جاتے ہیں ،تاخیر کی صورت میں جن کے ضائع ہوجانے کا احتمال ہے۔ پھر وقوعہ پر پہنچنے سے مجرم پکڑنے میں بھی آسانی رہتی ہے۔ جبکہ وقوعہ انجام پا جانے کے کئی گھنٹوں بعد محض گواہوں کے بیان پر اُسے درست ثابت کرنا اور ملزمان کو قانون کی گرفت میں لانا انتہائی مشکل امر ہے۔ 3. ترمیم نمبر ۸میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ ’’رپورٹ / شکایت کے مرحلے پر ہی مستغیث کے علاوہ چار تحریری حلفیہ گواہیاں بھی جمع کرائی جائیں ۔‘‘ قانون کے اجرا کا یہ طریقہ خلافِ ِاسلام، خلافِ قانون اور خلافِ عقل ہے۔ دورِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد واقعات میں زنا کی شکایتیں محض ایک شخص کے کہنے پر درج کی گئیں ۔مثال کے طور پیچھے ذکر کردہ ایک واقعہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں زنا کے واقعہ کی شکایت محض اکیلے میزبان نے درج کرائی تھی۔ (صفحہ نمبر۹) یہ ترمیم خلافِ قانون اس طرح ہے کہ پاکستان میں اس سے بھی زیادہ سنگین جرائم مثلاً بغاوت یا قتل وغیرہ کے لئے پہلے مرحلہ پر ہی جرم کو مکمل ثابت کرنے کا تقاضا نہیں کیا جاتا، حدود قوانین کے خلاف ہی یہ امتیاز کیوں برتا جارہا ہے ؟ اور خلافِ عقل اس لئے کہ ہر جرم کی گواہیاں اس مرحلے پر لی جاتی ہیں جب جرم کا فیصلہ کرکے مجرموں کو سزا سنانا یا بری کرنا مقصود ہو، جبکہ FIR (فرسٹ انفرمیشن رپورٹ) میں تمام گواہیاں ضروری نہیں ہوتیں ۔یہ رپورٹ تو دراصل جرم کے خلاف پولیس کے کام میں