کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 2
کتاب: محدث شمارہ 305
مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی
پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور
ترجمہ:
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
فکر و نظر
’تحفظ حقوقِ نسواں بل‘ کے اسلام سے متصادم پہلو
حدود قوانین کے خلاف حکومتی مہم کے سلسلے میں ’محدث‘ کا ابتداسے ہی نمایاں کردار رہا ہے۔ زیر نظربل کے تین مرحلے ہیں : اگست۲۰۰۶ء کے آغازمیں مختلف لوگوں نے اخبارات میں اس بل کا مجوزہ خاکہ پیش کیا تو اس وقت ان مجوزہ ترامیم پر ایک تفصیلی مضمون محدث کے شمارۂ اگست میں شائع ہوا۔ بعد ازاں ۲۱/اگست کو قومی اسمبلی میں یہ بل پیش کردیاگیا تو پیش کردہ بل کا شرع وقانون کی روشنی میں تفصیلی جائزہ محدث کے شمارۂ ستمبر میں لیا گیا۔ پھر سلیکٹ کمیٹی نے اس بل میں ۸ ترامیم اور سیاسی جماعتوں نے مزید ۴ ترامیم پیش کیں اور اسی شکل میں اسے منظور کرلیا گیا، چنانچہ زیر نظر مضمون اس منظور شدہ بل کے جائزہ پر مبنی ہے۔
اِنہی دنوں اس بل کے جائزے کے لئے مرکزی جمعیت ِاہل حدیث نے ایک علماء کمیٹی تشکیل دی جس میں مولانا ارشاد الحق اثری، حافظ صلاح الدین یوسف، حافظ عبد الرحمن مدنی، مولانا محمد اعظم ، راقم الحروف اور رانا شفیق پسروری شامل تھے۔ دو طویل مجالس کے بعد مذکورہ علماء کرام نے راقم الحروف کو پیش کردہ بل کا جائزہ لکھنے کی ہدایت کی۔ بعد ازاں اس تحریر پران علما نے نظرثانی فرمائی اور مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے بعض مقامات پر مفید اضافے بھی کئے جو حواشی میں درج ہیں ۔ (ح م)
اسلامی ریاست کے ایک بنیادی تقاضے کی تکمیل اور نظام مصطفی کی طرف اہم پیش رفت کرتے ہوئے ۱۰/فروری ۱۹۷۹ء کو جنرل ضیاء الحق نے حدود آرڈیننس نافذ کیا، بعد میں ۱۹۸۵ء کی اسمبلی نے اس کی توثیق کرکے اُنہیں آرڈیننس سے ’حدود قوانین‘ کا درجہ دیا۔ اس کے بعد ملک میں کئی اسمبلیاں بنیں اور ختم ہوئیں لیکن اُنہوں نے حدود قوانین کی ترمیم وتنسیخ کی بجائے ان کو برقرار رکھ کر اپنی مہر تصدیق ثبت کی۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے متعدد بار اور سرحد اسمبلی نے ۲۰۰۳ء میں ان قوانین کے مطابق ِاسلام ہونے کی قرارداد منظور کی۔ دو مرتبہ پیپلز پارٹی نے اسمبلی میں ان قوانین کی تنسیخ کا بل پیش کیا، لیکن اُنہیں سند ِقبولیت نہ مل سکی !
گذشتہ ڈیڑھ دو برس سے ان قوانین کے خلاف مغرب زدہ این جی اوز کی سرگرمیوں میں تیزی آئی۔ بعض ابلاغی اداروں کے اشتراک کے ساتھ روشن خیال حکومت نے اس بل کو