کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 19
الف وب،۳۷۶،۴۹۳/الف، ۴۹۶/الف، ب، ج) کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ حدود آرڈیننس کے محض دو جرائم (زنا آرڈیننس کی دفعہ۵ اورقذف آرڈیننس کی دفعہ ۷) باقی رکھے گئے ہیں ۔ گویا کل ۱۱ جرائم ہوئے۔ اب جن جرائم کی سزا دینا مطلوب ہے، اُنہیں تو پولیس کے دائرۂ عمل میں رکھ دیاگیا ہے اور وہ ہیں تعزیراتِ پاکستان کے۷جرائم۔ اورجن جرائم کی محض نمائش مقصود ہے یعنی باقی ماندہ ۴ جرائم، اُنہیں پولیس کی ذمہ داری سے نکال لیا گیا ہے۔ اگر معاشرے میں ان کا کوئی ارتکاب کرے تو پولیس کو کوئی اختیار حاصل نہیں کہ اُنہیں روک سکے اور پکڑ کر عدالت میں پیش کرے۔ اگر کسی شہری کو ان پر تکلیف ہے تو وہ بھی اُنہیں روکنے کی بجائے صبح ہونے کا انتظار کرے اور د فتری اوقات میں جاکر عدالتوں میں شکایت درج کرائے۔ اس خصوصی رعایت کے مستحق چار جرائم حسب ِذیل ہیں جن میں حدود آرڈیننس والے دونوں جرائم بھی شامل ہیں : 1. شرعی حد والا جرمِ زنا 3. زنا بالرضا (زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید ) 2. شرعی حد والا جرمِ قذف 4. زنابالرضا کی جھوٹی تہمت (ایضاً) ٭ یاد رہے کہ زنا بالجبر کی سزا دینے میں حکومت کو دلچسپی ہے کیونکہ عورت اس میں سزا سے مستثنیٰ ہے، اسلئے اس کو پولیس کی ذمہ داری میں برقرار رکھا گیا ہے اور اس کا مجرم مرد بلا وارنٹ گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے۔ ان تفصیلات کیلئے بل کی ترمیم نمبر۹ کے جداول ملاحظہ فرمائیں ۔ جرائم میں مذکورہ بالا امتیاز کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ معمولی جرائم مثلاً پتنگ بازی وغیرہ کی روک تھام وغیرہ تو پولیس کی ذمہ داری رہے گی لیکن زنا بالرضا اور بدکاری کی شرعی سزاؤں وغیرہ سے پولیس کو کوئی سروکار نہ ہوگا۔ اگر کسی شخص کو ان جرائم پر تکلیف ہے تووہ شکایت کنندہ بن کرعدالت کی فیسیں بھرے اور’جرم کے خاتمے کے لئے‘ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ یہاں چندمزید نکات خصوصیت سے قابل ذکر ہیں : 1. اسلام کی رو سے یہ تمام جرائم ’سنگین معاشرتی جرائم‘ ہیں اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ جرائم کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرے لیکن اس بل کے ذریعے ان جرائم پرگرفت کو محض کسی فرد کی شکایت تک محدود کردیا گیاہے گویا کہ اگر کوئی شکایت نہ کرے تو ان جرائم کے وقوع پر ریاست کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ۔یہ تصور صریحاً خلاف ِاسلام ہے کیونکہ قرآنِ کریم نے امر