کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 18
جائے گا۔ یہ بات ہمارے حلف، آئین ، قرارداد مقاصد اور اسلام کے مخالف ہے] 9. زنا کی شرعی سزا صرف نمائشی ہے، متوازی اور متضاد قانون سازی کے بعد اس پرعمل ہونا ممکن نہیں ۔[زنا کے بارے میں تین قوانین ہیں اور تینوں کی سزائیں مختلف ہیں ۔ حدود آرڈیننس (دفعہ ۵) کی رو سے شادی شدہ زانی سنگسار لیکن تعزیراتِ پاکستان کی بنا پر زیادہ سے زیادہ ۵ سال قید، دونوں میں تضاد ہے، زنا کی دوسری سزا کو ترجیح حاصل ہے] 10. کتاب وسنت کی رو سے شرعی سزاؤں میں کسی کو معافی کا اختیار نہیں ، صوبائی حکومت اورصدرکا یہ اختیار حاصل کرنا غیراسلامی ہے۔ [ترمیم نمبر۱۸ نے حدود آرڈیننس کی دفعہ ۲۰ کی شق۳ اور ۵ منسوخ کردی ہے جس کے بعدصدر کو معافی کا اختیار مل گیا ہے۔ زنا بالجبر اور زنا بالرضا کے تعزیراتِ پاکستان میں جانے سے بھی یہ اختیارات مل گئے ہیں ] 11. زنا کے ثبوت کے لئے پانچ گواہ مقرر کرناغیر اسلامی جبکہ ملزم کے اعتراف کوبھی نکال دینا غیر اسلامی ہے۔ [ترمیم ۸ میں دفعہ ۲۰۳ /الف کی شق ۲ دیکھیں ] 12. حدزنا آرڈیننس کی طرح حد قذف آرڈیننس کی برتری کا خاتمہ بھی غیر اسلامی ہے۔ [کیونکہ ترمیم نمبر ۲۸ نے حد قذف آرڈیننس ۱۹۷۹ء کی دفعہ نمبر۱۹ کو منسوخ کردیا ہے] 13. لعان کی کاروائی مکمل نہ کرنے پر شوہر کی سزا کا خاتمہ بیوی کو معلق چھوڑ دیتا ہے جو صحیح نہیں ! 14. ’’لعان کی صورت میں بیوی کا اعتراف اس پر شرعی حد عائد کردیتا ہے۔‘‘ اس شق کا خاتمہ خلافِ اسلام ہے۔ [ترمیم نمبر۲۵ جس نے قذف آرڈیننس کی دفعہ ۱۴ کی شق ۳ اور ۴ منسوخ کردی ہیں ] ایسے ہی قانونِ لعان کو قذف آرڈیننس سے خارج کرنا درست نہیں ۔ قانون کے اِجرا کا ناقابل عمل طریقہ کار اگرمذکورہ بالا تمام خلافِ اسلام ترامیم کو درست بھی کردیا جائے تب بھی تحفظ ِخواتین بل میں ان جرائم کی سزاکے طریقہ کار میں ایسی رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں جس کے بعد عملاً معاشرے میں زنا کی روک تھام ناممکن ہوگئی ہے، اس لئے یہ بل ناقابل اصلاح ہے۔ قانون کے اجرا کی بعض تفصیلات حسب ِذیل ہیں : زیر نظر بل کے ذریعے تعزیراتِ پاکستان میں مزید ۹ جرائم (۳۶۵ب،۳۶۷/الف ،۳۷۱/