کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 16
مجرم کو فوری طورپر سزا دلوانے کی ترمیم لائی جارہی ہے تو دوسری طرف شوہر کے بیوی پر الزامِ زنا لگانے کی صورت میں سابقہ قانون میں موجود تادیبی کاروائی (قید) کو ہی منسوخ کرکے لعان کے شرعی طریقہ کار کو معطل کیا جارہا ہے تاکہ کسی طرح شرعی ضوابط رو بہ عمل نہ آسکیں ۔ 14. لعان کے اسی قانون یعنی دفعہ ۱۴ کی شق نمبر ۴ کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’جو بیوی شوہر کے الزام کو سچ تسلیم کرلے تو اس پر زنا کی شرعی سزا جاری ہوگی۔‘‘ لیکن تحفظ ِخواتین بل نے اس شق کو بھی منسوخ کردیا ہے۔ اسلام کی رو سے اگر کوئی زنا کا اعتراف کرلے تو اس پر حد کی سزا جاری ہونے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی ۔ لیکن یہاں بیوی کے اعتراف کے باوجود اس پر حد کی زنا کو منسوخ کردینا اسلام سے صریح روگردانی ہے۔ ٭ اسلام میں لعان کے قانون کا تعلق درحقیقت الزامِ زنا سے ہے،اس لئے یہ فوجداری جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی بنا پر اس کو حدود آرڈیننس میں رکھا گیا تھا لیکن تحفظ حقوقِ نسواں بل کی آخری ترمیم نمبر۲۹ کے ذریعے لعان کو حدود آرڈیننس سے نکال کر قانونِ انفساخِ ازدواجِ مسلمانان ۱۹۳۹ء کی دفعہ نمبر۷ کی ذیلی دفعہ ۲ کے تحت کردیا گیا ہے، اور اغراض ووجوہ میں اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’لعان محض تنسیخ نکاح کی ایک صورت ہے جس کے ذریعے کوئی عورت اپنے شوہر سے علیحدگی کا مطالبہ کرسکتی ہے۔‘‘ واضح رہے کہ لعان کی صورت میں عورت کے اعتراف کو حذف کرینے کی وجہ بھی یہی غلط تصور ہے تاکہ اعتراف کی شکل میں زنا کی حد کا کوئی جواز باقی نہ رہے۔یہ تصور اور ترمیم بھی اسلامی قانون کی روح سے منافی ہے ! خلاصہ:تحفظ ِنسواں بل میں خلاف ِاسلام ترامیم کی فہرست بمعہ حوالہ جات 1. زنا کی شرعی سزاکو بدل کر ۵سال قید اور ۱۰ ہزارروپے جرمانہ کرنا خلافِ اسلام ہے،کیونکہ حدود اللہ میں ترمیم وتخفیف کا اختیار اللہ تعالیٰ نے روئے کائنا ت میں کسی کو بھی نہیں دیا۔ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں ۔ [ ترمیم نمبر ۷ میں شق نمبر۴۹۶ ب میں زنا کی تعریف درج ہے، انگریزی مسودہ میں اس کی سزا ساتھ ہی درج ہے جبکہ اُردو مسودہ میں غائب کردی گئی ہے۔ البتہ ترمیم نمبر۹ کے جدول ہشتم میں اس جرم کی سزا والے خانہ نمبر۷ میں اس کی سزا ۵سال قید اور ۱۰ ہزار جرمانہ موجود ہے ۔ زنا کی یہ سزا خلافِ اسلام ہے کیونکہ